فضل گیلانی ۔۔۔۔۔۔ یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے

یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے میرے ہو جائیں یہ سارے جھرنے منظر آلودہ ہوا جاتا ہے کس نے دریا میں اُتارے جھرنے کسی امکان کا پہلو ہیں کوئی تری آواز، ہمارے جھرنے اتنی نمناک جو ہے خاک مری کس نے مجھ میں سے گزارے جھرنے مجھ میں تصویر ہوے آخرِ شب خامشی، پیڑ، ستارے، جھرنے ایک وادی ہے سرِ کوہِ سکوت اور وادی کے کنارے جھرنے دیکھو تو بہتے ہوے وقت کی رَو اب ہمارے ہیں تمہارے جھرنے کیا بتائوں میں انھیں، تو ہی بتا پوچھتے ہیں ترے بارے…

Read More

شکیل بدایونی ۔۔۔۔۔۔ جل کے اپنی آگ میں خود صورت پروانہ ہم

جل کے اپنی آگ میں خود صورتِ پروانہ ہم بن گئے ہم رشتہء خاکِ درِ جانانہ ہم دیکھیے کس راہ لے جائے سکوں کی جستجو چل تو نکلے ہیں بہ یک اندازِ بے تابانہ ہم حالِ دل، احوالِ غم، شرحِ تمنا، عرضِ شوق بے خودی میں کہہ گئے افسانہ در افسانہ ہم پارسائی خندہ زن، وعدہ خلافی طعنہ ریز ہائے کس مشکل سے پہنچے تا درِ مے خانہ ہم فرصتِ یک لمحہ دے دیتی جو فکرِ روز گار یاد کر لیتے کوئی بھولا ہوا افسانہ ہم جب جفا و جور…

Read More

اثر لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے

وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے کس طرح کوئی مان لے، کچھ بات نہیں ہے ملنے کا یہ انداز نیا تم نے نکالا گویا کبھی پہلے کی ملاقات نہیں ہے جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے، وہ پہلو اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے کہنے کو یہاں رندِ خرابات بہت ہیں دل گرمیِ رندانِ خرابات نہیں ہے آ جائے گا سو بار، اثر! منہ کو کلیجا باتوں میں جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں ہے

Read More