المحدود ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

المحدود ۔۔۔ درختوں سے پرانے چہچہے رخصت ہوئے باد آزما پتے فشارِ دم کی قلت سے بدن میں چڑمڑا کر، خاک پر خاشاک کی صورت پڑے ہیں یاد کے اس موسمِ افسوس میں ہر شاخ کا چہرہ غمِ ہجراں کی پرچھائیں سے سنولایا ہوا ہے خیر ہو، یہ ہجر و ہجرت نسل بعدِ نسل جاری ہے خزاں کی خیر ہوجس کا یہ کیلنڈر ابھی جینے کی تاریخوں سے خالی ہے شنید و دید کا مارا ہوا ہوں کس طرح دیکھوں وہ آوازیں جو بھیتر میں بپا ہیں ان درختوں کے…

Read More

صاحبِ گداز: حسین امجد ۔۔۔ فائق ترابی

صاحبِ گداز حسین امجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعر دراصل ہیں وہی حسرت سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں حسرت کا یہ تصورِ شعر آج کے تجرباتی ادبی رویوں کی موجودگی میں بھی شاعروں کے ایک مخصوص قبیلے کی رگوں میں خون کی مانند گردش کرتا ہے- جنہیں اپنے ضمیر کی آواز کی ترسیل کےلیے کسی بناوٹی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی- اُن کا تصور کسی انفرادی پیمانے اور پیرائے کا اسیر نہیں ہوتا- یہی ان کا انفراد ہوتا ہے- حسین امجد کی نسبت شعرا کے اُسی خانوادے سے ہے جو دل…

Read More

کہانی ۔ ۔ ۔ حامد یزدانی

کہانی ۔۔۔ ’’ کہانی سُنائیے ناں، پاپا! مجھے نیند نہیں آرہی‘‘۔ ’’نہیں آج نہیں بیٹا، بہت تھکن ہو گئی آج تو ۔۔۔‘‘ ’’ کِسے؟ کہانی کو ؟‘‘ ’’ ارے نہیں، مجھے ۔۔۔ دن بھر کی مصروفیات نے تھکا کر رکھ دیا ہے۔ کل سُن لینا کہانی ۔۔۔ ضرور سناؤں گا کل ۔۔۔‘‘ ’’ یہ بات تو آپ نے کل بھی کی تھی ۔۔۔۔ مگر آج سنا نہیں رہے ۔۔۔ بس آج تو میں ۔۔۔‘‘ ’’اچھا، بابا، اچھا ۔۔۔کہو، کون سی کہانی سنو گے ۔۔۔؟‘‘ ’’کوئی سی بھی ۔۔۔‘‘ ’’ پھر…

Read More

حسرت موہانی

سر کہیں، بال کہیں، ہاتھ کہیں، پائوں کہیں اُن کا سونا بھی ہے کس شان کا سونا دیکھو

Read More

اثر لکھنوی ۔۔۔۔۔۔ وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے

وہ آنکھ، وہ تیور، وہ مدارات نہیں ہے کس طرح کوئی مان لے، کچھ بات نہیں ہے ملنے کا یہ انداز نیا تم نے نکالا گویا کبھی پہلے کی ملاقات نہیں ہے جو آپ کہیں اس میں یہ پہلو ہے، وہ پہلو اور ہم جو کہیں بات میں وہ بات نہیں ہے کہنے کو یہاں رندِ خرابات بہت ہیں دل گرمیِ رندانِ خرابات نہیں ہے آ جائے گا سو بار، اثر! منہ کو کلیجا باتوں میں جو کٹ جائے یہ وہ رات نہیں ہے

Read More