المحدود ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

المحدود ۔۔۔ درختوں سے پرانے چہچہے رخصت ہوئے باد آزما پتے فشارِ دم کی قلت سے بدن میں چڑمڑا کر، خاک پر خاشاک کی صورت پڑے ہیں یاد کے اس موسمِ افسوس میں ہر شاخ کا چہرہ غمِ ہجراں کی پرچھائیں سے سنولایا ہوا ہے خیر ہو، یہ ہجر و ہجرت نسل بعدِ نسل جاری ہے خزاں کی خیر ہوجس کا یہ کیلنڈر ابھی جینے کی تاریخوں سے خالی ہے شنید و دید کا مارا ہوا ہوں کس طرح دیکھوں وہ آوازیں جو بھیتر میں بپا ہیں ان درختوں کے…

Read More