بھیجا ہے مے کدے سے کسی نے پیامِ غم آؤ کہ منتظر ہے کوئی ہم کلامِ غم لے جائے اب جہاں کہیں شبدیزِ زندگی تھامی ہوئی ہے ہاتھ میں ہم نے زمامِ غم یوں اپنے ظرف کا نہ تمسخر اُڑائیے سر پر اُنڈیلیے، یہ بچا ہے جو جامِ غم آئے گا ایک رقعۂ خالی جواب میں اُس کے بجائے بھیجئے نامہ بہ نامِ غم مفرورِ معتبر ہیں ، ملیں گے یہیں کہیں اپنے زیاں کے کھوج میں والا کرامِ غم سب کو بلائے عشرت ارزاں نے کھا لیا اب تو…
Read MoreTag: Aftab Iqbal Shamim
آفتاب اقبال شمیم ۔۔۔ مے گساری سے ذرا ربط زیادہ کر لو
مے گساری سے ذرا ربط زیادہ کر لو اور جینا ہے تو مرنے کا ارادہ کر لو وہ کہ ناخواندۂ جذبہ ہے نہیں پڑھ سکتا اپنی تحریر کو تم جتنا بھی سادہ کر لو ایسا سجدہ کہ زمیں تنگ نظر آنے لگے یہ جبیں اور، ذرا اور کشادہ کر لو امتحاں کمرۂ دنیا میں اگر دنیا ہے روز گردان کے فعلوں کا اعادہ کر لو پھر بتائیں گے تمہیں چشمۂ حیواں ہے کہاں گھر سے دفتر کا ذرا ختم یہ جادہ کر لو ٹالنے کی تمہیں ٹل جانے کی عادت…
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔ بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی
بات جو کہنے کو تھی سب سے ضروری رہ گئی کیا کیا جائے غزل پہ بھی ادھوری رہ گئی رزق سے بڑھ کر اُسے کچھ اور بھی درکار تھا کل وُہ طائر اُڑ گیا، پنجرے میں چُوری رہ گئی تھی بہت شفاف لیکن دن کی اُڑتی گرد میں شام تک یہ زندگی رنگت میں بھُوری رہ گئی کیوں چلے آئے کھلی آنکھوں کی وحشت کاٹنے اُس گلی میں نیند کیا پوری کی پوری رہ گئی؟ بس یہی حاصل ہوا ترمیم کی ترمیم سے حاصل و مقصود میں پہلی سی دوری…
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔ ہوں انا الصحرا کبھی پوچھو مجھے کیا چاہئے
ہوں انا الصحرا ک،بھی پوچھو مجھے کیا چاہیے آسماں جتنا بڑا پینے کو دریا چاہیے اتنا سنجیدہ نہ ہو، سب مسخرے لگنے لگیں زندگی کو نیم عریانی میں دیکھا چاہیے جانتا ہوں کیوں یہ آسانی مجھے مشکل لگے طے نہ کر پاؤں کہ کس قیمت پہ دنیا چاہیے یہ رہا سامانِ دنیا، یہ رہے اسبابِ جاں کوئی بتلاؤ مجھے ان کے عوض کیا چاہیے کچھ نہیں تو اُس کے تسکینِ تغافل کے لیے ایک دن اُس یارِ بے پروا سے ملنا چاہیے یا زیاں کو سود سمجھو یا کہو سر…
Read Moreالمحدود ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم
المحدود ۔۔۔ درختوں سے پرانے چہچہے رخصت ہوئے باد آزما پتے فشارِ دم کی قلت سے بدن میں چڑمڑا کر، خاک پر خاشاک کی صورت پڑے ہیں یاد کے اس موسمِ افسوس میں ہر شاخ کا چہرہ غمِ ہجراں کی پرچھائیں سے سنولایا ہوا ہے خیر ہو، یہ ہجر و ہجرت نسل بعدِ نسل جاری ہے خزاں کی خیر ہوجس کا یہ کیلنڈر ابھی جینے کی تاریخوں سے خالی ہے شنید و دید کا مارا ہوا ہوں کس طرح دیکھوں وہ آوازیں جو بھیتر میں بپا ہیں ان درختوں کے…
Read Moreآفتاب اقبال شمیم ۔۔۔۔۔ میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ
میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو الاؤ تیز ہے، صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ تمھاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے…
Read Moreآفتاب اقبال شمیم
آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لائوں موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں
Read Moreآفتاب اقبال شمیم
عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے
Read More