المحدود ۔۔۔ آفتاب اقبال شمیم

المحدود ۔۔۔ درختوں سے پرانے چہچہے رخصت ہوئے باد آزما پتے فشارِ دم کی قلت سے بدن میں چڑمڑا کر، خاک پر خاشاک کی صورت پڑے ہیں یاد کے اس موسمِ افسوس میں ہر شاخ کا چہرہ غمِ ہجراں کی پرچھائیں سے سنولایا ہوا ہے خیر ہو، یہ ہجر و ہجرت نسل بعدِ نسل جاری ہے خزاں کی خیر ہوجس کا یہ کیلنڈر ابھی جینے کی تاریخوں سے خالی ہے شنید و دید کا مارا ہوا ہوں کس طرح دیکھوں وہ آوازیں جو بھیتر میں بپا ہیں ان درختوں کے…

Read More

آفتاب اقبال شمیم ۔۔۔۔۔ میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ

میں جب بھی چھونے لگوں، تم ذرا پرے ہو جاؤ یہ کیا کہ لمس میں آتے ہی دوسرے ہو جاؤ یہ کارِ عشق مگر ہم سے کیسے سرزد ہو الاؤ تیز ہے، صاحب! ذرا پرے ہو جاؤ تمھاری عمر بھی اس آب کے حساب میں ہے نہیں کہ اس کے برسنے سے تم ہرے ہو جاؤ یہ گوشہ گیر طبیعت بھی ایک محبس ہے ہوا کے لمس میں آؤ، ہرے بھرے ہو جاؤ کبھی تو مطلعِ دل سے ہو اتنی بارشِ اشک کہ تم بھی کھل کے برستے ہوئے کھرے…

Read More

آفتاب اقبال شمیم

آگ سے تیز کوئی چیز کہاں سے لائوں موم سے نرم ہے وہ اور پگھلتا ہی نہیں

Read More

آفتاب اقبال شمیم

عشق میں یہ مجبوری تو ہو جاتی ہے دنیا غیر ضروری تو ہو جاتی ہے

Read More