فائق ترابی ۔۔۔ سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے

سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے! پھر ترے گاؤں کی مٹی سے نمکدان بنے! اب تو خوابوں کے تعطل کا زمانہ آیا اب تو مشکل سے ملاقات کا امکان بنے ہر نیا شخص نیا زخم لگاتا جائے اس قدر پھول تو مل جائیں کہ گلدان بنے اپنے اجداد کی پہچان نہیں تھی جن کو آج وہ لوگ مرے شہر کی پہچان بنے پہلے اک اسمِ مُبیں لوحِ سخن پر اُترا بعد میں بحریں بنیں، بعد میں اوزان بنے میری تصویر بناتے ہو مگر یاد رہے آنکھ حیران بنے، زلف…

Read More

منقبتِ مادرِ اُمِّ اَبیہا (سلام اللہ علیہا) … فائق ترابی

منقبتِ مادرِ اُمِّ اَبیہا (سلام اللہ علیہا) فطرت نے کِیا آپ کو ممتاز خدیجہ ایّامِ جفا جُو میں وفا ساز خدیجہ! سادات میں جس نور کی تقسیم ہوئی ہے اس نورِ ابد تاب کا آغاز خدیجہ وہ آپ ہیں جن کےلیے ہر ایک سے پہلے ہوتا ہے سخی صحن کا در باز خدیجہ اک ابروئے خمدار کی جنبش پہ ہمہ دم ہر چیز لٹاتی ہیں بہ صد ناز خدیجہ شہبازِ ثنا تھک کے گرا آپ کے در پر اللہ رے یہ رفعتِ پرواز ، خدیجہ!! اک دُرِّ یتیم آپ کی…

Read More

فائق ترابی ۔۔۔ جبینِ دَم پہ رَقَم کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ

جبینِ دَم پہ رَقَم کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ نہ لمحہ بیش نہ کم کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ سہیلیوں کی طرح کھیلتی ہیں مٹی سے حیات و موت بہم کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ تمہارے ہاتھ سے اک روز گرنے والا ہے سپاہِ دل کا عَلَم کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ حَرَم نشینِ زمانہ ! گرائی جائے گی حریمِ قصر و حَرَم، کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ خمیدہ زلف کا خَم ، چشمِ پُر خُمار کا خُم زبانِ تلخ کا سَم ، کُلُّ مَنْ عَلَیہَا فَانْ چراغِ ہست کا فانوس منتشر ہوگا چلے گی…

Read More

نعت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔ فائق ترابی

دل میں رہے دروازۂ  دربارِ مدینہاے نعت گرِ سید و سردارِ مدینہ! گرمی ہے کچھ ایسی کہ زباں سوکھ رہی ہےاک بوند، مرے ابرِ گہر بارِ مدینہ! ہر شہر سے خط آئے مگر میری تمناآ جائے کسی روز مجھے تارِ مدینہ* آشفتہ سروں کےلیے سامانِ تسلیدیوارِ مدینہ تو ہے دیوارِ مدینہ اس ارضِ دو عالم کو بہت ناز ہے خود پرسر پر جو سجائی گئی دستارِ مدینہ انوارِ مدینہ سے تجھے بھیک عطا ہواے دل! اے مرے کاسۂ انوارِ مدینہ! فائق! مجھے کہتے ہیں سبھی لوگ تُرابیہاں دوسرے لفظوں میں…

Read More

صاحبِ گداز: حسین امجد ۔۔۔ فائق ترابی

صاحبِ گداز حسین امجد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ شعر دراصل ہیں وہی حسرت سنتے ہی دل میں جو اُتر جائیں حسرت کا یہ تصورِ شعر آج کے تجرباتی ادبی رویوں کی موجودگی میں بھی شاعروں کے ایک مخصوص قبیلے کی رگوں میں خون کی مانند گردش کرتا ہے- جنہیں اپنے ضمیر کی آواز کی ترسیل کےلیے کسی بناوٹی سہارے کی ضرورت نہیں ہوتی- اُن کا تصور کسی انفرادی پیمانے اور پیرائے کا اسیر نہیں ہوتا- یہی ان کا انفراد ہوتا ہے- حسین امجد کی نسبت شعرا کے اُسی خانوادے سے ہے جو دل…

Read More