فائق ترابی ۔۔۔ سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے

سنگِ تہمت کا ہدف میرا گریبان بنے!
پھر ترے گاؤں کی مٹی سے نمکدان بنے!

اب تو خوابوں کے تعطل کا زمانہ آیا
اب تو مشکل سے ملاقات کا امکان بنے

ہر نیا شخص نیا زخم لگاتا جائے
اس قدر پھول تو مل جائیں کہ گلدان بنے

اپنے اجداد کی پہچان نہیں تھی جن کو
آج وہ لوگ مرے شہر کی پہچان بنے

پہلے اک اسمِ مُبیں لوحِ سخن پر اُترا
بعد میں بحریں بنیں، بعد میں اوزان بنے

میری تصویر بناتے ہو مگر یاد رہے
آنکھ حیران بنے، زلف پریشان بنے

Related posts

Leave a Comment