فضل گیلانی ۔۔۔۔۔۔ ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید

ٹوٹ کر عشق کیا ہے بھی نہیں بھی شاید مجھ سے یہ کام ہوا ہے بھی نہیں بھی شاید اے مری آنکھ کی دہلیز پہ دم توڑتے خواب! مجھ کو افسوس ترا ہے بھی نہیں بھی شاید میری آنکھوں میں ہے ویرانی بھی شادابی بھی خواب کا پیڑ ہرا ہے بھی نہیں بھی شاید دل میں تشکیک ہوئی تجھ کو نہ چھو کر کیا    کیا ایسے تقوے کی جزا ہے بھی نہیں بھی شاید میں ہوں جس عہدِ پر آشوب میں زندہ سیّد اس میں اب ہونا مرا ہے بھی…

Read More

فضل گیلانی ۔۔۔۔۔ اس لیے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے

اس لیے بھی مجھے تجھ سے ملنے میں تاخیر ہے خواب کی سمت جاتی سڑک زیرِ تعمیر ہے اتنے پھول اک جگہ دیکھ کر سب کا جی خوش ہوا پتیاں جھڑنے پر کوئی کوئی ہی دلگیر ہے ہنستی دنیا ملی آنکھ کھلتے ہی روتی ہوئی یہ مرا خواب تھا اور یہ اس کی تعبیر ہے جس زباں میں ہے اس کی سمجھ ہی نہیں آ رہی غار کے دور کے ایک انساں کی تحریر ہے رحم کھاتی ہوئی کتنی نظروں کا ہے سامنا میری حالت ہی شاید مرے غم کی…

Read More

فضل گیلانی ۔۔۔۔۔۔ یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے

یہ رواں اشک یہ پیارے جھرنے میرے ہو جائیں یہ سارے جھرنے منظر آلودہ ہوا جاتا ہے کس نے دریا میں اُتارے جھرنے کسی امکان کا پہلو ہیں کوئی تری آواز، ہمارے جھرنے اتنی نمناک جو ہے خاک مری کس نے مجھ میں سے گزارے جھرنے مجھ میں تصویر ہوے آخرِ شب خامشی، پیڑ، ستارے، جھرنے ایک وادی ہے سرِ کوہِ سکوت اور وادی کے کنارے جھرنے دیکھو تو بہتے ہوے وقت کی رَو اب ہمارے ہیں تمہارے جھرنے کیا بتائوں میں انھیں، تو ہی بتا پوچھتے ہیں ترے بارے…

Read More

آخری خواہش ۔۔۔۔۔۔ نوشی گیلانی

آخری خواہش ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرے ساتھی مری یہ روح میرے جسم سے پرواز کر جائے تو لوٹ آنا مری بے خواب راتوں کے عذابوں پر سسکتے شہر میں تم بھی ذرا سی دیر کو رکنا مرے بے نور ہونٹوں کی دعائوں پر تم اپنی سرد پیشانی کا پتھر رکھ کے رو دینا بس اتنی بات کہہ دینا "مجھے تم سے محبت ہے”

Read More

خواب ۔۔۔۔۔ نوشی گیلانی

خواب ۔۔۔۔۔ سفر آسان لگتا تھا دلِ برباد!تجھ کو یہ سفر آسان لگتا تھا ادھر تو سوچتا تھا اور ادھر آنکھوں سے کوئی خواب چہرہ آن لگتا تھا مگر خوابوں میں رہنا خواب جیسی بے حقیقت خوشبوئے صحرا میں رہنا ہے کناروں سے جو ہو محروم اس دریا میں رہنا ہے دلِ برباد!ہم نے تو کہا تھا یہ سفر آسان لگتا ہے مگر آنکھیں بدن سے چھین لیتا ہے

Read More

کون روک سکتا ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔ نوشی گیلانی

کون روک سکتا ہے! …………………… لاکھ ضبطِ خواہش کے بے شمار دعوے ہوں اس کو بھول جانے کے بے پنہ ارادے ہوں اور اس محبت کو ترک کر کے جینے کا فیصلہ سنانے کو کتنے لفظ سوچے ہوں دل کو اس کی آہٹ پر برملا دھڑکنے سے کون روک سکتا ہے پھر وفا کے صحرا میں اس کے نرم لہجے اور سوگوار آنکھوں کی خوشبوئوں کو چھونے کی جستجو میں رہنے سے روح تک پگھلنے سے ننگے پائوں چلنے سے کون روک سکتا ہے آنسووں کی بارش میں چاہے دل…

Read More

فضل گیلانی ۔۔۔۔۔۔۔ ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھائوں گا

ہنس کر میں زندگی کی اذیت اٹھائوں گا تیرے لیے سکون کے لمحے بنائوں گا میں نے بدل لیا ہے رویہ ہواے شب! اب تو دیا بجھاے گی میں پھر جلائوں گا چل ہی پڑے گی چاروں طرف بادِ نو بہار جب میں زمیں پہ آخری پتا گرائوں گا فرضی حکایتوں پہ نہ آنسو گنوائو تم یارو! کبھی میں اپنی کہانی سنائوں گا پھیلائوں گا میں دامنِ دل تیرے سامنے تو سوچتا ہے، مَیں ترا احساں اٹھائوں گا اک پل میں ایک واقعہ رکھوں گا دھیان میں اور دوسرے ہی…

Read More