اب کے جنوں میں فاصلہ شاید نہ کچھ رہے دامن کے چاک اور گریباں کے چاک میں
Read MoreTag: Meer
میر تقی میر
ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺭﻭﻧﮯ ﻭﺍﻻ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﭼﻼ ﮨﻮﮞ ﺟﺴﮯ ﺍﺑﺮ ﮨﺮ ﺳﺎﻝ ﺭﻭﺗﺎ ﺭﮨﮯ ﮔﺎ
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ ہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا
رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے شمار…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا
کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا بےکسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا کچھ خطرناکی طریقِ عشق میں پنہاں نہیں کھپ گیا وہ راہ رو اس راہ ہو کر جو گیا مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا میر ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ جب سے وہ دریا پہ آکر بال اپنے…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ اے تو کہ یاں سے عاقبتِ کار جائے گا
اے تو کہ یاں سے عاقبتِ کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا بے چارہ کیوں کہ تاسرِدیوار جائے گا دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا آئے بِن اُس کےحال ہوا…
Read Moreمیر تقی میر ۔۔۔ مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا
مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا اک مغ بچہ اُتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل آرزوئے عشق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا آہ گیا سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اُس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اک مرتبہ جو میرؔ جی کا جامہ لے گیا
Read Moreمیرتقی میر ۔۔۔ بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا
بے تاب جی کو دیکھا دل کو کباب دیکھا جیتے رہے تھے کیوں ہم جو یہ عذاب دیکھا پودا ستم کا جس نے اس باغ میں لگایا اپنے کیے کا اُن نے ثمرہ شتاب دیکھا دل کا نہیں ٹھکانا بابت جگر کی گم ہے تیرے بلاکشوں کا ہم نے حساب دیکھا آباد جس میں تجھ کو دیکھا تھا ایک مدت اُس دل کی مملکت کو اب ہم خراب دیکھا لیتے ہی نام اُس کا سوتے سے چونک اُٹھے ہو ہے خیر میر صاحب! کچھ تم نے خواب دیکھا!
Read Moreمیر مہدی مجروح
ہم نے تو یہ بھی نہ جانا کہ چمن ہے کیا چیز اپنے ہی حال میں کچھ ایسے گرفتار رہے
Read Moreمیر اثر
وائے غفلت کہ ایک ہی دم میں مَیں کہیں اور کاروان کہیں
Read Moreمیر مہدی مجروح
گرد دیتی ہے کارواں کا پتہ یادگارِ گذشتگاں ہوں مَیں
Read More