میر تقی میر ۔۔۔ کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا

کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا
قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا

بےکسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر
جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا

کچھ خطرناکی طریقِ عشق میں پنہاں نہیں
کھپ گیا وہ راہ رو اس راہ ہو کر جو گیا

مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں
ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا

میر ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ
جب سے وہ دریا پہ آکر بال اپنے دھو گیا

Related posts

Leave a Comment