میر تقی میر ۔۔۔ ہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا

رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے شمار…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام

رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے شمار…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا

مہر کی تجھ سے توقع تھی ستم گر نکلا موم سمجھے تھے ترے دل کو سو پتھر نکلا داغ ہوں رشکِ محبت سے کہ اتنا بے تاب کس کی تسکیں کے لیے گھر سے تُو باہر نکلا جیتے جی آہ ترے کوچے سے کوئی نہ پھرا جو ستم دیدہ رہا جاکے سو مر کر نکلا دل کی آبادی کی اس حد ہے خرابی کہ نہ پوچھ جانا جاتا ہے کہ اس راہ سے لشکر نکلا اشکِ تر قطرۂ خوں لختِ جگر پارۂ دل ایک سے ایک عدو آنکھ سے بہتر…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کاخانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیںمرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑاقصّہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولےجاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اُٹھا کے چلہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا اے تاجِ شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاسہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ…

Read More