میر تقی میر ۔۔۔ گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کاخانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیںمرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑاقصّہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولےجاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اُٹھا کے چلہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا اے تاجِ شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاسہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا

سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کاہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا ہزار رنگ کھلےگل چمن کے ہیں شاہدکہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاںنکل کےشہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا عرق فشانی سے اُس زلف کی ہراساں ہوںبھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا ہے تاروں کا علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرےخلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں‌کا تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھاویں گےجو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا تڑپ…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ تیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا

ہم خستہ دل ہیں تجھ سے بھی نازک مزاج ترتیوری چڑھائی تو نے کہ یاں جی نکل گیا گرمیِ عشق مانعِ نشوونما ہوئیمیں وہ نہال تھا کہ اُگا اورجل گیا مستی میں چھوڑ دَیر کو کعبے چلا تھا میںلغزش بڑی ہوئی تھی و لیکن سنبھل گیا عریاں تنی کی شوخی سے دیوانگی میں میرمجنوں کے دشتِ خار کا داماں بھی چل گیا

Read More

میرتقی میر ۔۔۔ تیر جو اس کمان سے نکلا

تیر جو اس کمان سے نکلا جگرِ مرغ جان سے نکلا نکلی تھی تیغ بے دریغ اس کی میں ہی اک امتحان سے نکلا گو کٹے سر کہ سوزِ‌ دل جوں شمع اب تو میری زبان سے نکلا مرگیا جو اسیر قیدِ حیات تنگنائے جہان سے نکلا دل سے مت جا کہ حیف اُس کا وقت جو کوئی اُس مکان سے نکلا نامرادی کی رسم میرؔ سے ہے طَور یہ اس جوان سے نکلا

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتا

ایسی گلی اک شہر اسلام نہیں رکھتاجس کُوچے میں وہ بت صد بدنام نہیں رکھتا آزار نہ دے اپنے کانوں کے تئیں اےگلآغاز مرے غم کا انجام نہیں رکھتا ناکامیِ صد حسرت خوش لگتی نہیں ورنہاب جی سےگزر جانا کچھ کام نہیں لگتا ہو خشک تو بہتر ہے وہ ہاتھ بہاراں میںمانند نےِ نرگس جو جام نہیں رکھتا یوں تو رہ و رسم اس کو اس شہر میں سب سے ہےاک میرؔ ہی سے خط و پیغام نہیں رکھتا

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمالِ راہ کا

مت ہو دشمن اے فلک مجھ پائمالِ راہ کاخاک افتادہ ہوں میں بھی اک فقیر اللہ کاسیکڑوں طرحیں نکالیں یار کے آنے کی لیکعذر ہی جاہے چلا اس کے دلِ بد خواہ کاگر کوئی پیرِ مغاں مجھ کوکرے تو دیکھےپھرمے کدہ سارے کا سارا صرف ہے اللہ کاکاش تیرے غم رسیدوں کو بلاویں حشر میںظلم ہے اک خلق پر آشوب اُن کی آہ کا

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا

کیا کہوں کیسا ستم غفلت میں مجھ سے ہوگیا قافلہ جاتا رہا میں صبح ہوتے سو گیا بےکسی مدت تلک برسا کی اپنی گور پر جو ہماری خاک پر سے ہو کے گزرا رو گیا کچھ خطرناکی طریقِ عشق میں پنہاں نہیں کھپ گیا وہ راہ رو اس راہ ہو کر جو گیا مدعا جو ہے سو وہ پایا نہیں جاتا کہیں ایک عالم جستجو میں جی کو اپنے کھو گیا میر ہر یک موج میں ہے زلف ہی کا سا دماغ جب سے وہ دریا پہ آکر بال اپنے…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا

اے تو کہ یاں سے عاقبتِ‌ کار جائے گا غافل نہ رہ کہ قافلہ اک بار جائے گا موقوف حشر پر ہے سو آتی بھی وہ نہیں کب درمیاں سے وعدۂ دیدار جائے گا چُھوٹا جو میں قفس سے تو سب نے مجھے کہا بے چارہ کیوں کہ تاسرِ‌دیوار جائے گا دے گی نہ چین لذتِ زخم اُس شکار کو جو کھا کے تیرے ہاتھ کی تلوار جائے گا تدبیر میرے عشق کی کیا فائدہ طبیب اب جان ہی کے ساتھ یہ آزار جائے گا آئے بِن اُس کےحال ہوا…

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا

مفت آبروئے زاہدِ علامہ لے گیا اک مغ بچہ اُتار کے عمّامہ لے گیا داغِ فراق و حسرتِ وصل آرزوئے عشق میں ساتھ زیرِ خاک بھی ہنگامہ لے گیا پہنچا نہ پہنچا آہ گیا سو گیا غریب وہ مرغِ نامہ بر جو مرا نامہ لے گیا اُس راہزن کے ڈھنگوں سے دیوے خدا پناہ اک مرتبہ جو میرؔ جی کا جامہ لے گیا

Read More

میر تقی میر ۔۔۔ گل کو محبوب ہم قیاس کیا

گل کو محبوب ہم قیاس کیا فرق نکلا بہت جو باس کیا دل نے ہم کو مثالِ آئینہ ایک عالم کا روشناس کیا کچھ نہیں سوجھتا ہمیں اُس بن شوق نے ہم کو بے حواس کیا عشق میں ہم ہوئے نہ دیوانے قیس کی آبرو کا پاس کیا صبح تک شمع سر کو دھنتی رہی کیا پتنگے نے التماس کیا ایسے وحشی کہاں ہیں اے خوباں! میرکو تم عبث اداس کیا

Read More