میر تقی میر ۔۔۔ سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا

سنا ہے حال ترے کشتگاں بچاروں کا
ہوا نہ گور گڑھا اُن ستم کے ماروں کا

ہزار رنگ کھلےگل چمن کے ہیں شاہد
کہ روزگار کے سر خون ہے ہزاروں کا

ملا ہے خاک میں کس کس طرح کا عالم یاں
نکل کےشہر سے ٹک سیر کر مزاروں کا

عرق فشانی سے اُس زلف کی ہراساں ہوں
بھلا نہیں ہے بہت ٹوٹنا ہے تاروں کا

علاج کرتے ہیں سودائے عشق کا میرے
خلل پذیر ہوا ہے دماغ یاروں‌کا

تری ہی زلف کو محشر میں ہم دکھاویں گے
جو کوئی مانگے گا نامہ سیاہ کاروں کا

تڑپ کے مرنے سے دل کے کہ مغفرت ہو اُسے
جہاں میں کچھ تو رہا نام بے قراروں کا

تڑپ کے خرمنِ گل پر کبھی گِر اے بجلی
جلانا کیا ہے مرے آشیاں کے خاروں کا

تمہیں تو زہد و ورع پر بہت ہے اپنے غرور
خدا ہے شیخ جی ہم بھی گناہ گاروں کا

Related posts

Leave a Comment