میر تقی میر ۔۔۔ گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا

گزرا بنائے چرخ سے نالہ پگاہ کا
خانہ خراب ہوجیو اس دل کی چاہ کا

آنکھوں میں جی مرا ہے ادھر دیکھتا نہیں
مرتا ہوں میں تو ہائے رے صرفہ نگاہ کا

اک قطرہ خون ہو کے پلک سے ٹپک پڑا
قصّہ یہ کچھ ہوا دلِ غفراں پناہ کا

تلوار مارنا تو تمہیں کھیل ہے ولے
جاتا رہے نہ جان کسو بے گناہ کا

ظالم زمیں سے لوٹتا دامن اُٹھا کے چل
ہوگا کمیں میں ہاتھ کسو داد خواہ کا

اے تاجِ شہ نہ سر کو فرو لاؤں تیرے پاس
ہے معتقد فقیر نمد کی کلاہ کا

بیمار تو نہ ہووے جیے جب تلک کہ میرؔ
سونے نہ دے گا شور تری آہ آہ کا

Related posts

Leave a Comment