میر تقی میر ۔۔۔ نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام

رہے خیال تنک ہم بھی رُوسیاہوں کا
لگے ہو خون بہت کرنے بے گناہوں کا

نہیں ستارے یہ سوراخ پڑگئے ہیں تمام
فلک حریف ہوا تھا ہماری آہوں کا

گلی میں اُس کی پھٹے کپڑوں پر مرے مت جا
لباسِ فقر ہے واں فخر بادشاہوں کا

تمام زلف کے کوچے ہیں مارِ پیچ اُس کی
تجھی کو آوے دِلا! چلنا ایسی راہوں کا

کہاں سے تہ کریں پیدا یہ ناظمانِ حال
کہ کوچ بافی ہی ہے کام ان جلاہوں کا

حساب کا ہے کا روزِ شمار میں مجھ سے
شمار ہی نہیں ہے کچھ مرے گناہوں کا

تری جو آنکھیں ہیں تلوار کے تلے بھی اُدھر
فریب خوردہ ہے تُو میرؔ کن نگاہوں کا

Related posts

Leave a Comment