حامد یزدانی ۔۔۔ الھڑ برس کا سنہری پَل

الھڑ برس کا سنہری پَل
۔۔۔۔۔۔۔۔
محبت اپنے ہونے پر بہت اصرار کرتی ہے
گلابی سال کے روشن مہینے کی
کسی نیلی سی اک تعطیل کے ساحل پہ
موسم آن ٹھہرا ہے
سنہرے پَل کا سایہ بھی سنہرا ہے
دلوں کی عمر جب الہڑ برس کی ہو
فضاؤں میں عجب سی اک کشش تحلیل ہوتی ہے
تو چُپ کے آئنے میں
آنے والی اک ادھوری یاد کی
تکمیل ہوتی ہے
نظر بے ساختہ بس ایک جانب کھنچتی جاتی ہے
ستارے برف کی صورت پگھلتے ہیں
تمازت دھوپ کی ہو
چاندنی محسوس ہوتی ہے
کہ جیسے اجنبی تعبیر اپنے خواب سے
مانوس ہوتی ہے
ہَوا ٹھہری ہوئی بھی ہو
توپردے رقص کرتے ہیں
کھنکتی سی ہنسی کے کانچ کھڑکی میں
بکھرتے ہیں
کہِیں ٹوٹی ہوئی، بوسیدہ ممٹی سے ہری
شاخیں نکلتی ہیں
سمے کے زرد ساحل پر
بہت مدت سے ناکارہ پڑی کشتی کے دامن میں
سفر کے پھول کھلتے ہیں
پرانے ریتلے ٹیلے کی بھوری جھاڑیوں میں
اک پرندہ چہچہاتا ہے
شفق ہوتا، جھجکتا کوئی آنچل مسکراتاہے
جھکی آنکھوں کی خاموشی بھی اک اظہار کرتی ہے
عجب تکرار کرتی ہے
محبت اپنے ہونے پر بہت اصرار کرتی ہے

Related posts

Leave a Comment