ظہیر کاشمیری

اپنے گلے میں اپنی ہی بانہوں کو ڈالیے جینے کا اب تو ایک یہی ڈھنگ رہ گیا  

Read More

ظہیر دہلوی ۔۔۔ خوشی گُل کی نہ دھڑکا ہے خزاں کا

خوشی گُل کی نہ دھڑکا ہے خزاں کا تماشائی ہوں نیرنگِ جہاں کا لُٹا ہے قافلہ تاب و تواں کا خدا حافظ ہے دِل کے کارواں کا ہمیشہ موردِ برق و بلا ہوں مٹے جھگڑا الٰہی آشیاں کا اگر پِھرتی نگاہِ یار پِھرتی ِکیا کیا جرم ہم نے آسماں کا دلِ بے تاب نے وہ بھی مٹایا کسی کو کچھ جو دھوکا تھا فغاں کا پِھریں گر عہدِ دشمن سے تو جانوں نہیں ہے اعتبار اُن کی زباں کا ہمارا سوزِ پنہاں سنتے سنتے کلیجہ پک گیا ہے رازداں کا…

Read More

سید ظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا

وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا کوزہ گر کے ہاتھ میں جس دم گاراتھا ہم پردیسی، ہم کیا جانیں باغ کے دکھ ہم نے اپنا جیون تھر میں ہارا تھا اب کے ایسا پھول کھلا تھاصحرا میں جس کے رخ سے روشن چاند ستارہ تھا اُن آنکھوں کی وحشت کا کچھ مت پوچھو جن ہاتھوں نے تنہا دشت سنوارا تھا ہم نے اس کی خاطر گھر بھی چھوڑ دیا جس نے ہم کو دشت میں لا کر مارا تھا آئو، دیکھو پھول کھلے ہیں صحرا میں یہ مت…

Read More

ظہیر کاشمیری ۔۔۔۔۔۔ یہ کاروبارِ چمن اس نے جب سنبھالا ہے

یہ کاروبارِ چمن اُس نے جب سنبھالا ہے فضا میں لالہ و گُل کا لہو اچھالا ہے ہمیں خبر ہے کہ ہم ہیں چراغِ آخرِ شب ہمارے بعد اندھیرا نہیں اُجالا ہے ہجومِ گُل میں چہکتے ہوئے سمن پوشو! زمینِ صحنِ چمن آج بھی جوالا ہے ہمارے عشق سے دردِ جہاں عبارت ہے ہمارا عشق، ہوس سے بلند و بالا ہے سنا ہے آج کے دن زندگی شہید ہوئی اسی خوشی میں تو ہر سمت دیپ مالا ہے ظہیر، ہم کو یہ عہدِ بہار راس نہیں ہر ایک پھول کے…

Read More

سیّدظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں

(نذرِ لیاقت علی عاصم) حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں گھر بنانے کا حوصلہ ہی نہیں جس کی خاطر سفر تمام کیا مجھ کو منزل پہ وہ ملا ہی نہیں میری آنکھوں میں خواب ہیں تیرے ورنہ جینے کا حوصلہ ہی نہیں شہر خوابوں کا بس گیا،لیکن اک مسافر پلٹ سکا ہی نہیں تو نے پوچھا ہے حال رستوں کا میری آنکھوں میں کچھ بچا ہی نہیں مجھ سے بچھڑا بڑی سہولت سے جیسے وہ مجھ کو جانتا ہی نہیں آ تجھے چھوڑ آئوں منزل تک پھر نہ کہنا: مجھے…

Read More

ظہیر کاشمیری ۔۔۔۔۔۔ موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِِ جنوں بے باک ہوئے

موسم بدلا، رُت گدرائی، اہلِ جنوں بے باک ہوئے فصلِ بہار کے آتے آتے کِتنے گریباں چاک ہوئے گُل بوٹوں کے رنگ اور نقشے، اب تو یونہی مِٹ جائیں گے ہم کہ فروغِ صبحِ چمن تھے، پابندِ فتراک ہوئے مہرِ تغیّر اس دَھج سے آفاق کے ماتھے پر چمکا صدیوں کے اُفتادہ ذرے، ہم دوشِ افلاک ہوئے دِل کے غم نے دردِ جہاں سے مِل کے بڑا بے چین کیا پہلے پلکیں پُرنم تھیں، اَب عارض بھی نمناک ہوئے کِتنے الہڑ سپنے تھے جو دورِ سحر میں ٹوٹ گئے کِتنے…

Read More