سید ظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا

وہ لمحہ بھی خود میں کتنا پیارا تھا کوزہ گر کے ہاتھ میں جس دم گاراتھا ہم پردیسی، ہم کیا جانیں باغ کے دکھ ہم نے اپنا جیون تھر میں ہارا تھا اب کے ایسا پھول کھلا تھاصحرا میں جس کے رخ سے روشن چاند ستارہ تھا اُن آنکھوں کی وحشت کا کچھ مت پوچھو جن ہاتھوں نے تنہا دشت سنوارا تھا ہم نے اس کی خاطر گھر بھی چھوڑ دیا جس نے ہم کو دشت میں لا کر مارا تھا آئو، دیکھو پھول کھلے ہیں صحرا میں یہ مت…

Read More

سیّدظہیر کاظمی ۔۔۔۔۔۔ حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں

(نذرِ لیاقت علی عاصم) حسبِ حال اپنا زائچہ ہی نہیں گھر بنانے کا حوصلہ ہی نہیں جس کی خاطر سفر تمام کیا مجھ کو منزل پہ وہ ملا ہی نہیں میری آنکھوں میں خواب ہیں تیرے ورنہ جینے کا حوصلہ ہی نہیں شہر خوابوں کا بس گیا،لیکن اک مسافر پلٹ سکا ہی نہیں تو نے پوچھا ہے حال رستوں کا میری آنکھوں میں کچھ بچا ہی نہیں مجھ سے بچھڑا بڑی سہولت سے جیسے وہ مجھ کو جانتا ہی نہیں آ تجھے چھوڑ آئوں منزل تک پھر نہ کہنا: مجھے…

Read More