بول کنارے …… عنبرین صلاح الدین

بول کنارے ………….. کانچ کی چُوڑی ہاتھ پہ توڑ کے ٹکڑوں میں اِک خواب سجایا بادل میں اِک شکل بنا کر پورے سال کی بارش آنکھ سے برسا دی رُخساروں سے پلک اُٹھا کر اُس کے تیز کنارے سے اِک چھید کیااور ایک لکیرلپک کر آئی رات کی کالی چادر پر اِک تارا ٹوٹا اپنی دُعا میں انجانا اِک نام لیا اورلمبے بالوں کی اِک سیڑھی شام کی کھڑکی سے لٹکائی کتنے بوجھل پہر گزارے جانے کس بے درد سے پل میں اپنے پانْو کو خواب کی بہتی جھیل میں…

Read More

دریچہ ۔۔۔۔۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دریچہ ۔۔۔۔۔ رات ہے آخری سانسوں پہ کہ دن ٹوٹ کے ٹکڑوں میں نکل آیا فلک کے در سے نا مکمل کئی وعدوں کی طرح دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دُھندلے تارے منتظر آنکھوں میں آگرتے ہیں لمحہ لمحہ گُونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز صبح کا راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے کھینچ دیتا ہے وہاں ایک سِرے سے لے کر میری بے خوابی کی سُرخی سے اُفق پر پھیلی ایک بے انت لکیر شام تک کھوجتا پھرتا…

Read More

پسِ ساخت …… عنبرین صلاح الدین

پسِ ساخت …………. باریکی سے لفظوں کی ترتیب لگاتے، ہاتھ کے پیچھے چُھپ کر دُنیا دیکھتے مِشکن! ایک کتاب میں چھپ کر رہنا اچھا ہوتا ہے دِلچسپی سے تم پر باتیں کرتی دُنیا تم کو لفظوں سے حرفوں میں، حرفوں سے اِمکان کے لمحوں میں تقسیم کیے جاتی ہے کیا اِس خال و خد کے ٹکڑے کر دینے سے، یہ انبوہ سوالوں کا اور اِن کا خلا بھی مِٹ جائے گا؟ مِشکن، تم اِک لفظ نہیں ہو تم تو لفظ کے پیچھے چُھپ کر دُنیا دیکھنے والی آنکھ ہو لفظوں…

Read More

ایمبو لینس کے اندر سے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

ایمبو لینس کے اندر سے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ صدیوں جیسے پل کانوں میں سر سر کرتا ہے وقت کا مایہ جل گُونجے ہر آواز ایک چنگھاڑ طواف کرے اور کھولے سارے راز پیچھے رہ گیا گھر بیٹھی ہوں میں سانسیں روکے گود میں تیرا سر! رستے ہٹتے جائیں پہییے چیخیں گرم سڑک پر سگنل کھُلتے جائیں کتنی دُور نگر سو سو بار اِک پل میں سوچوں کتنا اور سفر! اندر سب گُم صُم کھڑکی سے باہر کی دُنیا اپنی دُھن میں گُم لفظ نہیں بن پائیں ہاتھوں پیروں میں بے چینی سانسیں…

Read More

مِحرم …… عنبرین صلاح الدین

مِحرم …….. عورتوں سے بھرا صحن ہے بین کرتی ہوئی عورتیں دھوپ کی زرد چادر ہے اور چھت کو جاتی ہوئی سیڑھیوں کے اُکھڑتے کنارے پہ اٹکا ہوا دن پھسلتی ہوئی دھوپ دیوار پر، سبز بیلوں میں اُلجھی ہوئی بیل جیسے کوئی اور دیوار کے ساتھ کرسی پہ بیٹھی ہوئی سب کے پُرسوں کی محور۔۔۔ اُدھر صحن کے بیچ میں کچھ قدم پر پڑا ،اُس کی آدھی صدی کی رفاقت کا پورا بدن دھوپ کی بیل بیلوں کے ہاتھوں سے جیسے نکلتی چلی جا رہی ہے یہ بیلیں ، یہ…

Read More