دریچہ ۔۔۔۔۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دریچہ ۔۔۔۔۔ رات ہے آخری سانسوں پہ کہ دن ٹوٹ کے ٹکڑوں میں نکل آیا فلک کے در سے نا مکمل کئی وعدوں کی طرح دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دُھندلے تارے منتظر آنکھوں میں آگرتے ہیں لمحہ لمحہ گُونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز صبح کا راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے کھینچ دیتا ہے وہاں ایک سِرے سے لے کر میری بے خوابی کی سُرخی سے اُفق پر پھیلی ایک بے انت لکیر شام تک کھوجتا پھرتا…

Read More