دریچہ ۔۔۔۔۔۔۔ عنبرین صلاح الدین

دریچہ
۔۔۔۔۔
رات ہے آخری سانسوں پہ
کہ دن ٹوٹ کے ٹکڑوں میں نکل آیا فلک کے در سے
نا مکمل کئی وعدوں کی طرح
دستِ افلاک سے لٹکے ہوئے دُھندلے تارے
منتظر آنکھوں میں آگرتے ہیں لمحہ لمحہ
گُونج اُٹھتی ہے کہیں رنج میں ڈوبی آواز
صبح کا راز عیاں کرتا یہ پہلا پنچھی
جس کے پر میری نگاہوں کی طنابوں سے بندھے
کھینچ دیتا ہے وہاں ایک سِرے سے لے کر
میری بے خوابی کی سُرخی سے اُفق پر پھیلی
ایک بے انت لکیر
شام تک کھوجتا پھرتا ہی رہے گا یہ کنارہ اِس کا!
اِس سے پہلے کہ فلک نیلا، زمیں سبز ہو ، اور
رنگ سب کھُل کے ہنسیں کرنوں کی انگلی تھامے
اور ذرا دیر میں یہ خالی سڑک
گاڑیوں، رکشوں، بسوں سے گونجے
شب کی افسردگی، درماندگی،شو ریدگی سب
دل کی آشفتگی اور تشنگی، رنجیدگی سب
صبح کی چاپ چمکتے ہی کہیں گُم ہو جائے
خواب کا سِحر کھُلے
دِن کے کاموں میں اُلجھ کر نہ مجھے یاد رہے
رات کا آخری پل کیسا تھا، کب تھا، کیا تھا!
اِس سے پہلے کہ کرن جھانکے دریچے میں مرے
اُس کی نرمی مرے ہاتھوں کو چھوئے
اور یہ جادو ٹوٹے
اپنے ہاتھوں کو میں ساکت کہیں رکھ چھوڑوں گی
میں دریچہ ہی نہیں کھولوں گی!!

Related posts

Leave a Comment