رحمان حفیظ ۔۔۔۔۔ اْڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک

اُڑاتے آئے ہیں آپ اپنے خواب زار کی خاک
یہ اور خاک ہے، اک دشتِ بے کنار کی خاک!

ڈرا رہے ہو سفر کی صعوبتوں سے ہمیں!

تمھارے منہ میں بھی خاک، اور رہ گزار کی خاک!

یہ میں نہیں ہوں تو پھرکس کی آمد آمد ہے!

خوشی سے ناچتی پھرتی ہے رہگزار کی خاک

ہمیں بھی ایک ہی صحرا دیا گیا تھا، مگر

اُڑا کے آئے ہیں وحشت میں تین چار کی خاک

ہمیں مقیم ہوئے مدتیں ہوئیں، لیکن

سَروں سے اب بھی نکلتی ہے رَہ گزار کی خاک

سنا ہے ڈھونڈتے پھرتے ہیں کب سے کْوزہ گراں

ہماری آنکھ کا پانی، ترے دیار کی خاک

یہ حال ہے کہ ابھی سے کھنک رہے ہیں ظْروف

ابھی گْندھی نہیں جن میں سے بے شمار کی خاک

عجب نہیں کہ مجھے زندہ گاڑنے والے

کل آکے پھانک رہے ہوں مرے مزار کی خاک

Related posts

Leave a Comment