ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے
ذرا یہ لوگ تو اٹھیں سرہانے سے اُس کے
یہی نہ ہو کہ توجہ ہٹا لے وہ اپنی
زیادہ دیر نہ بچنا نشانے سے اُس کے
وہ مجھ سے تازہ محبت پہ راضی ہے، لیکن
اصول اب بھی وہی ہیں پرانے سے اُس کے
وہ تیر اتنی رعایت کبھی نہیں دیتا
یہ زخم لگتا نہیں ہے گھرانے سے اُس کے
وہ چڑھ رہا تھا جدائی کی سیڑھیاں آفاق
سرک رہا تھا مرا ہاتھ شانے سے اُس کے
Related posts
-
محسن اسرار ۔۔۔ گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا
گزر چکا ہے زمانہ وصال کرنے کا یہ کوئی وقت ہے تیرے کمال کرنے کا برا... -
احمد فراز ۔۔۔ زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے
زندگی سے یہی گلہ ہے مجھے تو بہت دیر سے ملا ہے مجھے تو محبت سے... -
فانی بدایونی ۔۔۔ آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ دردِ دل...