خرم آفاق ۔۔۔۔۔۔ ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے

ہمیں بھی کام بہت ہے خزانے سے اُس کے ذرا یہ لوگ تو اٹھیں سرہانے سے اُس کے یہی نہ ہو کہ توجہ ہٹا لے وہ اپنی زیادہ دیر نہ بچنا نشانے سے اُس کے وہ مجھ سے تازہ محبت پہ راضی ہے، لیکن اصول اب بھی وہی ہیں پرانے سے اُس کے وہ تیر اتنی رعایت کبھی نہیں دیتا یہ زخم لگتا نہیں ہے گھرانے سے اُس کے وہ چڑھ رہا تھا جدائی کی سیڑھیاں آفاق سرک رہا تھا مرا ہاتھ شانے سے اُس کے

Read More