حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر

صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر یہ خستہ حال پرانا مکان خالی کر زمانہ نت نئے اسلوب کی تلاش میں ہے تُو اپنے رسمِ کہن کی دکان خالی کر کنارہ تو نہیں، گرداب اپنی منزل ہے ہوا نکال دے، اب بادبان خالی کر تُو کس کی گھات میں بیٹھا ہے، اپنی خیر منا الٹنے والی ہے تیری مچان، خالی کر نشانہ چُوک نہ جائے لرزتے ہاتھوں سے اچھال تیر کماں سے، کمان خالی کر نویدِ صبحِ یقیں کوئی دے گیا مشتاق سو اب علاقہء وہم و گمان خالی…

Read More