حبیب الرحمٰن مشتاق ۔۔۔ خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کریں گے

خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کریں گے ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کریں گے پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کریں گے اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کریں گے سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ سنیں گے طعنے ہر اک کے لیکن زباں کو آری…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں

سخن کے نِت نئے میں رنگ و بُو نکالتا ہوں خموشیوں سے تری گفتگو نکالتا ہوں ہر ایک ہاتھ میں پتھر دکھائی دیتا ہے میں اپنے گھر سے قدم جب کبھو نکالتا ہوں پھر اُس کے بعد میں اپنے لئے بھی بچتا نہیں اگر میں دل سے تری آرزو نکالتا ہوں بھلا نہ پایا جُنوں میں بھی روزگار کا غم میں خارِ دشت سے کارِ رفو نکالتا ہوں برائے وسعتِ ملکِ سخن ، بنامِ سخن میں اپنا لشکرِ فن چارسو نکالتا ہوں سکھانا پڑگیا فرہاد کو یہ فن آخر یہ…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے

نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے سنا تو یہ تھا کہ بازارِ شش جہات میں ہے مجھے زمیں کے مسائل سے تھوڑی فرصت دو مرا شعور فضائے تخیلات میں ہے میں تجھ کو اب تری تصویر سے نکالوں گا تجھے خبر نہیں یہ فن بھی میرے ہاتھ میں ہے کسی قدیم کھنڈر سے مجھے نکالا گیا شمار اس لئے میرا نوادرات میں ہے یہ قیس نام کے بندے سے اس کو کیا نسبت ازل سے دشتِ جنوں میری شاملات میں ہے مرے سوال کا کیا ہے فلک…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر

صدائیں دیتا ہے کوئی ہر آن خالی کر یہ خستہ حال پرانا مکان خالی کر زمانہ نت نئے اسلوب کی تلاش میں ہے تُو اپنے رسمِ کہن کی دکان خالی کر کنارہ تو نہیں، گرداب اپنی منزل ہے ہوا نکال دے، اب بادبان خالی کر تُو کس کی گھات میں بیٹھا ہے، اپنی خیر منا الٹنے والی ہے تیری مچان، خالی کر نشانہ چُوک نہ جائے لرزتے ہاتھوں سے اچھال تیر کماں سے، کمان خالی کر نویدِ صبحِ یقیں کوئی دے گیا مشتاق سو اب علاقہء وہم و گمان خالی…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے

دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے یہ تو خود چل کے مرے ہاتھ میں آئی ہوئی ہے اب ترا ہجر ، مرے زخم ہرے رہتے ہیں میں نے کمرے میں تری یاد اگائی ہوئی ہے یہ کہیں پاس بلانے کا اشارا تو نہیں کس نے چوٹی پہ وہاں آگ جلائی ہوئی ہے پھر بھی کیوں مجھ کو لگا رہتا ہے اک ڈر تجھ سے صلح شرطوں پہ تری جب، مرے بھائی! ہوئی ہے لامکانی کی یہ گٹھڑی بھی عجب گٹھڑی ہے ہم نے اک عمر سے جو سر پہ…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے

خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کرینگے پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کرینگے اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کرینگے سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ سنیں گے طعنے ہر اک کے لیکن زباں کو آری نہیں کرینگے ہماری خلوت…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا

اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا بولئے پھر پتھروں سے دل کا سودا کیوں کیا لن ترانی کی صدا ہر آیتِ قدرت میں ہے اپنی ناموجودگی کا اتنا چرچا کیوں کیا آنے والے کل کی چیخیں کہہ رہی ہیں مجھ سے آج جو نہیں دیکھے تھے ان خوابوں کو رسوا کیوں کیا تیرتے ہیں پانیوں پر اب غباروں کی طرح سوچتا ہوں پتھروں نے خود کو ہلکا کیوں کیا خود سے باہر آکے خود کو خود پہ ظاہر کردیا میں تو اپنا رازداں تھا، میں نے ایسا کیوں…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق

یہ قیس نام کے بندے سے اس کو کیا نسبت ازل سے دشتِ جنوں میری شاملات میں ہے

Read More