حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے

خموشیوں کی کسی بھی صورت لحاظ داری نہیں کرینگے ہم اپنے کمرے کے منظروں پر سکوت طاری نہیں کرینگے پڑی ضرورت تو اپنے سر کو اتار پھینکیں گے راستے میں سفر میں شانوں کے بوجھ کو ہم زیادہ بھاری نہیں کرینگے اب ایک ماتم ہے اِس کنارے اور ایک ماتم ہے اُس کنارے اگرچہ طے یہ ہوا تھا بچھڑے تو آہ و زاری نہیں کرینگے سخن سرائی میں اپنے پُرکھوں کی ہم روایت کے ہیں محافظ سنیں گے طعنے ہر اک کے لیکن زباں کو آری نہیں کرینگے ہماری خلوت…

Read More