حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔ نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے

نہ مل سکا وہ جو میرے تصورات میں ہے
سنا تو یہ تھا کہ بازارِ شش جہات میں ہے

مجھے زمیں کے مسائل سے تھوڑی فرصت دو
مرا شعور فضائے تخیلات میں ہے

میں تجھ کو اب تری تصویر سے نکالوں گا
تجھے خبر نہیں یہ فن بھی میرے ہاتھ میں ہے

کسی قدیم کھنڈر سے مجھے نکالا گیا
شمار اس لئے میرا نوادرات میں ہے

یہ قیس نام کے بندے سے اس کو کیا نسبت
ازل سے دشتِ جنوں میری شاملات میں ہے

مرے سوال کا کیا ہے فلک کے پاس جواب
کہ ہاتھ کس کا زمانے کے حادثات میں ہے

وضو بناکے میں اشکوں سے، اس کو سوچتا ہوں
خیالِ یار بھی گویا تبرکات میں ہے

اسے نکال کے خود سے مَیں کتنا بچتا ہوں
جواب کیا کوئی علمِ ریاضیات میں ہے

بس ایک لمحہء غفلت سے دونوں ڈرتے ہیں
میں اس کی گھات میں ہوں اور وہ میری گھات میں ہے

Related posts

Leave a Comment