احسان شاہ …. کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے

کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے کسی عقاب کو گویا کہ زاغ ،مشورہ دے مرے علاوہ نہیں ہے کوئی یہاں جو مجھے زمیں کو دشت بنائوں کہ باغ ،مشورہ دے مرے ندیم! میں مفلوج ہونے والا ہوں ملے فراغ سے کیسے فراغ ،مشورہ دے امیرِ لشکرِ مغلوب! اب کہاں جائیں مٹائیں خود کو یا رہنے دیں داغ،مشورہ دے علیمِ وقت! نہیں ہے تمیزِ لیل و نہار میں کب جلائوں بجھائوں چراغ ،مشورہ دے

Read More

احسان شاہ ۔۔۔ ہجومِ شہر پہ میں آشکار ہوتے ہوئے

ہجومِ شہر پہ میں آشکار ہوتے ہوئے اکیلا ہو گیا ہوں، بے شمار ہوتے ہوئے ہوائے وحشتِ شب کھا رہی ہے میرا وجود "میں خود کو دیکھ رہا ہوں غبار ہوتے ہوئے” وہ مر گیا تو کھلا، مر گیا ہے فاقے سے پڑوس میں کئی سرمایہ دار ہوتے ہوئے خوشی سے ڈوب گیا میں ترے سمندر میں کہ سطحِ آب پہ تنکے ہزار ہوتے ہوئے یہ کس کا عکس مرے آئنے پہ ٹھہرا ہے سمٹ گئی ہے نظر بے کنار ہوتے ہوئے دئیے کے بدلے مَیں دل کو جلا کے…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے

دولتِ عشق کہاں میری کمائی ہوئی ہے یہ تو خود چل کے مرے ہاتھ میں آئی ہوئی ہے اب ترا ہجر ، مرے زخم ہرے رہتے ہیں میں نے کمرے میں تری یاد اگائی ہوئی ہے یہ کہیں پاس بلانے کا اشارا تو نہیں کس نے چوٹی پہ وہاں آگ جلائی ہوئی ہے پھر بھی کیوں مجھ کو لگا رہتا ہے اک ڈر تجھ سے صلح شرطوں پہ تری جب، مرے بھائی! ہوئی ہے لامکانی کی یہ گٹھڑی بھی عجب گٹھڑی ہے ہم نے اک عمر سے جو سر پہ…

Read More

احسان شاہ ۔۔۔ نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب

نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب ہر ایک عہد سے ہے محوِ گفتگو مرا خواب تلاشِ نان و نمک کھا گئی ہے میری نیند بہا کے لے گئی دنیائے آبجو مرا خواب بلا رہی ہے مجھے اپنی اور مقتلِ شب خراج مانگ رہا ہے مرا لہو مرا خواب فصیلِ جبر کی بنیاد تک ہلا دے گا اک انقلاب کی ہو گا کبھی نمو، مرا خواب وہ خواب دیکھ رہی ہیں مری کھلی آنکھیں ہر ایک خواب کی ٹھہرے گا آرزو مرا خواب تو اپنے خواب کے زندان سے نکل…

Read More

حبیب الرحمان مشتاق ۔۔۔۔۔۔ اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا

اب پشیمان و پریشاں ہیں کہ گھاٹاکیوں کیا بولئے پھر پتھروں سے دل کا سودا کیوں کیا لن ترانی کی صدا ہر آیتِ قدرت میں ہے اپنی ناموجودگی کا اتنا چرچا کیوں کیا آنے والے کل کی چیخیں کہہ رہی ہیں مجھ سے آج جو نہیں دیکھے تھے ان خوابوں کو رسوا کیوں کیا تیرتے ہیں پانیوں پر اب غباروں کی طرح سوچتا ہوں پتھروں نے خود کو ہلکا کیوں کیا خود سے باہر آکے خود کو خود پہ ظاہر کردیا میں تو اپنا رازداں تھا، میں نے ایسا کیوں…

Read More