احسان شاہ …. کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے

کبھی تو یوں مرے دل کو دماغ، مشورہ دے کسی عقاب کو گویا کہ زاغ ،مشورہ دے مرے علاوہ نہیں ہے کوئی یہاں جو مجھے زمیں کو دشت بنائوں کہ باغ ،مشورہ دے مرے ندیم! میں مفلوج ہونے والا ہوں ملے فراغ سے کیسے فراغ ،مشورہ دے امیرِ لشکرِ مغلوب! اب کہاں جائیں مٹائیں خود کو یا رہنے دیں داغ،مشورہ دے علیمِ وقت! نہیں ہے تمیزِ لیل و نہار میں کب جلائوں بجھائوں چراغ ،مشورہ دے

Read More

احسان شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ گماں کے دشت سے گزرا یقین کرتے ہوئے

گماں کے دشت سے گزرا یقین کرتے ہوئے میں آسمان کو اپنی زمین کرتے ہوئے غمِ فراق کی کاٹی ہے رات سجدے میں کسی کی یاد سپردِ جبین کرتے ہوئے وہ کائنات کو جلوت میں لے کے آیا ہے خود اپنے آپ کو خلوت نشین کرتے ہوئے ہوا سے کہہ دو مرے صحن کے درختوں سے کرے کلام تو لہجہ مہین کرتے ہوئے مرے بدن کی کفالت کا بوجھ ہے مجھ پر میں کام کرتا ہوں خود کو مشین کرتے ہوئے میں بے خیالی میں کل رات گھر سے نکلا…

Read More

ڈاکٹرغفور شاہ قاسم ۔۔۔ مجید امجد:سفاک تنہائیوں کا شاعر

مجید امجد ۔۔ سفاک تنہائیوں کا شاعر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایذرا پاؤنڈ کا کہنا ہے: ’’شاعری وہ تنہا شخص کرتا ہے جس کی خاموشی اور تنہائی ناقابلِ برداشت ہو جایا کرتی ہے۔‘‘ پاؤنڈ کی یہ بات بڑی جامعیت اور موزونیت کے ساتھ مجید امجد کی شخصیت اور شاعری کا احاطہ کرتی ہے۔ مجید امجد کے شب و روز کا مطالعہ کیا جائے اور واقعاتِ حیات کو مدِ نظر رکھا جائے تو یہ تلخ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ پیدائش سے لے کر وفات تک وہ الم ناک حادثات سے دوچار ہوتے…

Read More

احسان شاہ ۔۔۔ ہجومِ شہر پہ میں آشکار ہوتے ہوئے

ہجومِ شہر پہ میں آشکار ہوتے ہوئے اکیلا ہو گیا ہوں، بے شمار ہوتے ہوئے ہوائے وحشتِ شب کھا رہی ہے میرا وجود "میں خود کو دیکھ رہا ہوں غبار ہوتے ہوئے” وہ مر گیا تو کھلا، مر گیا ہے فاقے سے پڑوس میں کئی سرمایہ دار ہوتے ہوئے خوشی سے ڈوب گیا میں ترے سمندر میں کہ سطحِ آب پہ تنکے ہزار ہوتے ہوئے یہ کس کا عکس مرے آئنے پہ ٹھہرا ہے سمٹ گئی ہے نظر بے کنار ہوتے ہوئے دئیے کے بدلے مَیں دل کو جلا کے…

Read More

باقر علی شاہ ۔۔۔ دکھ کا لمحہ آیا ہو گا

دکھ کا لمحہ آیا ہو گا وقت ہی ٹھہرا لگتا ہو گا بے سمتی تقدیر ہوئی ہے تجھ سے ناتا ٹوٹا ہو گا وہ تو یہ گھر بھول گیا ہے کوّا یوں ہی بولتا ہو گا شاید یوں تنہائی کم ہو خود سے باتیں کرتا ہو گا سعئ لا حاصل تھا جینا جانے کب کب سوچا ہو گا ہر شے بے معنی لگتی ہے باقر تھکتا جاتا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہ نامہ شام و سحر، لاہور جولائی ۱۹۹۷ء

Read More

احسان شاہ ۔۔۔ نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب

نمودِ صبحِ درخشاں کی آبرو مرا خواب ہر ایک عہد سے ہے محوِ گفتگو مرا خواب تلاشِ نان و نمک کھا گئی ہے میری نیند بہا کے لے گئی دنیائے آبجو مرا خواب بلا رہی ہے مجھے اپنی اور مقتلِ شب خراج مانگ رہا ہے مرا لہو مرا خواب فصیلِ جبر کی بنیاد تک ہلا دے گا اک انقلاب کی ہو گا کبھی نمو، مرا خواب وہ خواب دیکھ رہی ہیں مری کھلی آنکھیں ہر ایک خواب کی ٹھہرے گا آرزو مرا خواب تو اپنے خواب کے زندان سے نکل…

Read More

شاہ نصیر

خیالِ زلفِ بتاں میں نصیر پیٹا کر گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

Read More

احسان شاہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری آئنوں سے کب ملاقاتیں نئی ہیں

ہماری آئنوں سے کب ملاقاتیں نئی ہیں مگر اس بار لگتا ہے کہ کچھ باتیں نئی ہیں نئے چہرے پہن کر جو یہاں آئے ہیں ان کی پرانی حاجتیں ہیں اور مناجاتیں نئی ہیں اگرچہ آسماں خالی پڑا ہے بادلوں سے زمینوں پر مگر اب کے یہ برساتیں نئی ہیں یہاں آئے ہوئے ہم کو ابھی کچھ دن ہوئے ہیں ہمارے واسطے یہ دن نئے ،راتیں نئی ہیں مری بستی میں نووارد ہیں کچھ ایسے قبائل قدیمی سوچ ہے اُن کی مگر باتیں نئی ہیں

Read More

شاہ مبارک آبرو

دل کب آوارگی کو بھولا ہے خاک گر ہو گیا بگولہ ہے

Read More

شاہ مبارک آبرو

پھرتے ہی پھرتے دشت دِوانے کدھر گئے وے عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

Read More