باقر علی شاہ ۔۔۔ دکھ کا لمحہ آیا ہو گا

دکھ کا لمحہ آیا ہو گا وقت ہی ٹھہرا لگتا ہو گا بے سمتی تقدیر ہوئی ہے تجھ سے ناتا ٹوٹا ہو گا وہ تو یہ گھر بھول گیا ہے کوّا یوں ہی بولتا ہو گا شاید یوں تنہائی کم ہو خود سے باتیں کرتا ہو گا سعئ لا حاصل تھا جینا جانے کب کب سوچا ہو گا ہر شے بے معنی لگتی ہے باقر تھکتا جاتا ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ماہ نامہ شام و سحر، لاہور جولائی ۱۹۹۷ء

Read More