قاضی حبیب الرحمن ۔۔۔۔۔۔ تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا

تلاشِ ذات میں اپنا نشاں نہیں ملتا
یقین کیسا؟ یہاں تو گماں نہیں ملتا

سفر سے لوٹ کے آنا بھی اک قیامت ہے

خود اپنے شہر میں اپنا مکاں نہیں ملتا

بہت دنوں سے بساطِ خیال ویراں ہے

بہت دنوں سے وہ آشوبِ جاں نہیں ملتا

جہاں قیام ہے اُس کا ، عجیب شخص ہے وہ

یہ واقعہ ہے کہ اکثر وہاں نہیں ملتا

گواہ سارے ثقہ ہیں ، مگر تماشا ہے

کسی کے ساتھ کسی کا بیاں نہیں ملتا

شعورِ جاں ، عوضِ جاں ، بسا غنیمت ہے

کہ یک نفَس بھی یہاں بے زیاں نہیں ملتا

بھٹک رہی ہے اندھیروں میں زندگی کب سے

وہ صبحِ نور ، وہ شہرِ اذاں نہیں ملتا

وہ ساری حالتِ سودا تھی ، تیرے ملنے تک

پھر اُس کے بعد ، سرِ دوستاں نہیں ملتا

جو دیکھیے تو ، کہیں بھی نظر نہیں آتا

جو سوچیے تو ، وہ منظر ، کہاں نہیں ملتا

کوئی تو بات ہے آوارۂ محبت میں

ہر ایک دل کو غمِ رایگاں نہیں ملتا

ہزار قُرب ہو ، رہتا ہے ایک بُعد حبیب

زمیں کے ساتھ کبھی آسماں نہیں ملتا

Related posts

Leave a Comment