نوید سروش ۔۔۔ جب کوئی دریچہ نہ پرندہ نہ شجر ہے

جب کوئی دریچہ نہ پرندہ نہ شجر ہے
پھر سوچیے کس طور یہاں زندہ بشر ہے

معلوم یہی ہوتا ہے سنسان کھنڈر ہے
گویا کوئی تاریخ کا آباد نگر ہے

اُس سمت کشش کون سی لے جاتی ہے دل کو
یادوں کے جزیرے میں جو ویران سا گھر ہے

ہاتھوں میں صداقت کا علم لے کے چلا ہوں
ہر گام مری منزلِ مقصد پہ نظر ہے

جو صورتِ خورشید تھا دنیائے ادب میں
اخبار میں اُس شخص کے مرنے کی خبر ہے

یہ نام یہ عزت جو خدا کی ہے ودیعت
ماں باپ کی بے لوث دعائوں کا اثر ہے

Related posts

Leave a Comment