نوید سروش ۔۔۔ منظر رہا کبھی پسِ منظر نہیں رہا

منظر رہا کبھی پسِ منظر نہیں رہا
ویسے بھی دوستوں سے میں چھپ کر نہیں رہا

مجھ سے خفا ہوئے ترے دریا تو یہ ہُوا
پہلے کی طرح جوشِ سمندر نہیں رہا

غیروں کا کیا ہے اپنے بھی اپنے نہیں رہے
جب اوج پر ہمارا مقدر نہیں رہا

سرگرداں آج ہے کوئی میرے لیے سروش
جب کہ میں آج خود کو میسر نہیں رہا

Related posts

Leave a Comment