بشیر احمد حبیب ۔۔۔ وہ چھپ بھی جائے تو مجھ کو دکھائی دیتا ہے

وہ چھپ بھی جائے تو مجھ کو دکھائی دیتا ہے
خموشیوں میں مجھے سب سنائی دیتا ہے

وہ اپنے ہونٹوں کی ہلکی سی ایک جنبش سے
گلِ خیال کو کیا کیا رسائی دیتا ہے

وہ اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے مے کدوں کے بیچ
کبھی کبھار عجب آشنائی دیتا ہے

طوافِ ذات عجب راس آگیا ہے اسے
گلی میں، شہر میں کم کم دکھائی دیتا ہے

کبھی کبھار تو بس یوں ہی آزمانے کو
وہ پاس رہ کے مجھے کم نمائی دیتا ہے

Related posts

Leave a Comment