بشیر احمد حبیب ۔۔۔ اب جو بچھڑے ہیں تو ملنے کا گماں باقی ہے

اب جو بچھڑے ہیں تو ملنے کا گماں باقی ہے جیسے مٹ جانے کے بعد اگلا جہاں باقی ہے خواہشیں مرتی نہیں شکل بدل لیتی ہیں جل بجھا شعلۂ جاں کب کا، دھواں باقی ہے کس کی منزل تھی کہاں، کس کو کہاں رکنا تھا دید وا دید گئی، عمرِ رواں باقی ہے کتنے ساون مری آنکھوں میں اتر آتے ہیں سوچتا رہتاہوں کیا اور کہاں باقی ہے کتنے تاریک گھروندے ہیں مگر سوچو تو ایک اک ذرہ چمک سکتا ہے، جاں باقی ہے ہم وہ خوش فہم کہ پھر…

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔ آ نکھ تو ہے بینائی نہیں ہے

آ نکھ تو ہے بینائی نہیں ہے مَن بھیتر تنہائی نہیں ہے تیری باتیں کیسے جانوں تجھ تک مری رسائی نہیں ہے تیری آنکھوں میں جو دیکھی دریا میں گہرائی نہیں ہے دنیا داری کے جھگڑوں میں کوئی کسی کا بھائی نہیں ہے اُلفت کی اس راہ گزر میں شہرت ہے، رسوائی نہیں ہے دیکھ حبیب اب دنیا بھر میں دل ایسا سودائی نہیں ہے

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔ امید کے شجر پہ کھلے خشک پھول تھے

امید کے شجر پہ کھلے خشک پھول تھے جو غم کی آ ندھیوں میں بھی صحرا کی دھول تھے جب جیتے جی وہ شخص مرا ہو نہیں سکا اگلے جہاں میں وصل کے وعدے فضول تھے میرا تو ماہ و سال نے چہرہ بدل دیا تیری نظر میں تازہ گلابوں کے پھول تھے وہ بزم کیا چھٹی کوئی مطلب نہیں رہا گرد و نواحِ شہر میں اگتے ببول تھے ہم ایک ساتھ رہتے ہوئے مل نہیں سکے یہ کس کے فیصلے تھے یہ کیسے اصول تھے

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔ تمہارا ساتھ ہے تو روشنی سے نسبتیں ہیں

تمہارا ساتھ ہے تو روشنی سے نسبتیں ہیں تمہارے وصل سے پیدا یہ کیسی رفعتیں ہیں بنے ہیں جو ستارے استعارہ منزلوں کا تمہاری وسعتوں میں کچھ یہ میری حیرتیں ہیں تمہارے نقش پا نے جو مرتب کر دیے ہیں وہ رستے ہی ہماری جستجو کی منزلیں ہیں ہمارے حرف کیا ہیں اور ہماری فکر کیا ہے دل و جاں میں سرایت خوبصورت صورتیں ہیں ترے پیہم تغافل نے یہ ثابت کر دیا ہے کسی کی سوچ میں رہنا بھی گویا قربتیں ہیں ہزاروں میں ہمیں کو یوں نظر انداز…

Read More

بشیر احمد حبیب ۔۔۔ وہ چھپ بھی جائے تو مجھ کو دکھائی دیتا ہے

وہ چھپ بھی جائے تو مجھ کو دکھائی دیتا ہے خموشیوں میں مجھے سب سنائی دیتا ہے وہ اپنے ہونٹوں کی ہلکی سی ایک جنبش سے گلِ خیال کو کیا کیا رسائی دیتا ہے وہ اپنی ادھ کھلی آنکھوں سے مے کدوں کے بیچ کبھی کبھار عجب آشنائی دیتا ہے طوافِ ذات عجب راس آگیا ہے اسے گلی میں، شہر میں کم کم دکھائی دیتا ہے کبھی کبھار تو بس یوں ہی آزمانے کو وہ پاس رہ کے مجھے کم نمائی دیتا ہے

Read More