بشیر احمد حبیب ۔۔۔ امید کے شجر پہ کھلے خشک پھول تھے

امید کے شجر پہ کھلے خشک پھول تھے
جو غم کی آ ندھیوں میں بھی صحرا کی دھول تھے

جب جیتے جی وہ شخص مرا ہو نہیں سکا
اگلے جہاں میں وصل کے وعدے فضول تھے

میرا تو ماہ و سال نے چہرہ بدل دیا
تیری نظر میں تازہ گلابوں کے پھول تھے

وہ بزم کیا چھٹی کوئی مطلب نہیں رہا
گرد و نواحِ شہر میں اگتے ببول تھے

ہم ایک ساتھ رہتے ہوئے مل نہیں سکے
یہ کس کے فیصلے تھے یہ کیسے اصول تھے

Related posts

Leave a Comment