نوید سروش ۔۔۔ منظر رہا کبھی پسِ منظر نہیں رہا

منظر رہا کبھی پسِ منظر نہیں رہا ویسے بھی دوستوں سے میں چھپ کر نہیں رہا مجھ سے خفا ہوئے ترے دریا تو یہ ہُوا پہلے کی طرح جوشِ سمندر نہیں رہا غیروں کا کیا ہے اپنے بھی اپنے نہیں رہے جب اوج پر ہمارا مقدر نہیں رہا سرگرداں آج ہے کوئی میرے لیے سروش جب کہ میں آج خود کو میسر نہیں رہا

Read More

نوید سروش ۔۔۔ جب کوئی دریچہ نہ پرندہ نہ شجر ہے

جب کوئی دریچہ نہ پرندہ نہ شجر ہے پھر سوچیے کس طور یہاں زندہ بشر ہے معلوم یہی ہوتا ہے سنسان کھنڈر ہے گویا کوئی تاریخ کا آباد نگر ہے اُس سمت کشش کون سی لے جاتی ہے دل کو یادوں کے جزیرے میں جو ویران سا گھر ہے ہاتھوں میں صداقت کا علم لے کے چلا ہوں ہر گام مری منزلِ مقصد پہ نظر ہے جو صورتِ خورشید تھا دنیائے ادب میں اخبار میں اُس شخص کے مرنے کی خبر ہے یہ نام یہ عزت جو خدا کی ہے…

Read More