کو ّے ۔۔۔ حامد یزدانی

کوّے
۔۔۔۔۔

طویل اور مہیب راہداری عبور کر کے میں ایک دالان میں جا نکلتا ہوں جس کے گرد اونچی فصیلیں ایستادہ ہیں۔ ایک عجیب دھند چھائی ہوئی ہے۔ نہ صاف اجالا ہے نہ صاف اندھیرا ۔سامنے ایک سیاہ محرابی بےکواڑدروازہ نُما ہے۔ اچانک عقب سے کَھٹ کی آواز آتی ہے۔ میں مُڑ کر دیکھتا ہوں۔ میرے آنے کا راستہ بھی دیوار ہو چکا ہے۔ بھیانک اندھیرا چھانے لگتا ہے اور یکا یک ہر سمت سے بےسمت چیخیں بلندہونےلگتی ہیں۔ادھرسیاہ محرابی دروازہ نُما سے ایک ہیولہ برآمد ہوتا ہے؛ ماحول سے بھی زیادہ ہولناک شبیہ ۔۔۔ کندھوں پر چغہ لٹکائے، سر پر عجیب وضع کا ہیٹ اور پاؤں میں لمبے شکاری بُوٹ۔۔۔ٹَک، ٹَک، ٹَک۔۔۔اُس کا چہرہ اندھیرے سے نِیم اجالے میں آتا ہے تو میرا دل لرز کر رہ جاتا ہے۔۔۔اس کی آنکھوں کی جگہ دو گہرے تاریک غار دکھائی دیتے ہیں۔سامنے اٹھے ہوئے ہاتھوں پر دھرے دو غار ۔۔۔ اوران میں سُرخ دیدے حرکت کر رہے ہیں ۔۔۔ دائیں بائیں ۔۔۔ بائیں دائیں ۔۔۔ خوف سے میرے بدن کو جھرجھری سی آجاتی ہے اور اُسی دم عقابوں کا ایک غول ان غار جیسی آنکھوں پر آ جھپٹتا ہے ۔۔۔ اور ۔۔۔!

’’ اُف ۔۔۔۔ کیا مصیبت ہے!‘‘ میں یک دم بستر پر اُٹھ بیٹھتا ہوں۔ ماتھا پسینے سے تر اور چہرہ ہاتھوں میں چھپا ہوا۔
’’کیا ہُوا؟ ۔۔۔کیا پھر وہی خواب ۔۔۔۔؟ بیوی نِیم غنودگی کے عالم میں پوچھتی ہے۔
’’ہاں ۔۔۔‘‘ میں بس اِتنا ہی کہہ پاتا ہوں۔
’’کتنی بار کہا ہے: دائیں کروٹ سویا کریں، آیۃ الکرسی اور معوذتین پڑھ کر ۔۔۔ مگر سُنتے ہی نہیں آپ۔‘‘ بیوی تپائی سے پانی کا گلاس اٹھاتے ہوئے کہتی ہے۔ ’’اب سورہیے ،صبح عدالت بھی جانا ہے، تاریخ پر ۔۔۔ ہمیشہ سیدھا لیٹتے ہیں ۔۔۔ کسی کی سُنیں تب ناں۔۔۔‘‘ بیوی بڑبڑاتی ہوئی بستر پر دراز ہو جاتی ہے اور میں اس خواب کے بارے میں سوچنے لگتا ہوں۔ اب یہ کتنے تواتر سے دکھائی دینے لگا ہے۔ پہلے تو بس کبھی کبھار ہی آتا تھا ۔ ہفتے میں ایک بار یا مہینے میں ایک بار ۔۔۔ مگر اب۔۔۔۔!

شہری ترقی کی بلند دفتری عمارت کے مقابل لیک ویو کی ایک قدیم عمارت میں مرکزی دروازے سے کوئی تیس چالیس قدم کے فاصلے پر خراب اور نِیم خراب حالت میں کھڑی سرکاری بسوں کی بے تربیت قطار کو پار کرتے ہوئے گرد گرد راستہ ایک بے کواڑ دروازے تک پہنچتا ہے جس کی دیوار پر ایک بارش خوردہ چوبی تختی آویزاں ہے: ’’خصوصی عدالت، سپیشل مجسٹریٹ محکمہ آب و توانائی‘‘۔ اُوپر سے قوس بناتے ہوئے اس دروازہ نُما کے بعد چوکور احاطہ سا آجاتا ہے جس کے بالکل سامنے محکمے کا ڈے کیئر سنٹر ہے اوراس کے مقابل ایوانِ انصاف؛ کمرہ ٔ خصوصی عدالت ۔ درمیان میں اگر کچھ حائل ہے تووہ ہے ایک بوڑھا، باریش برگد، دو آم کے نحیف پیڑ اور ایک بڑا سا شہتوت ۔آنے والوں کی سواریاں اسی شہتوت کی چھاؤں میں استراحت کرتی ہیں جس کی بل کھاتی قدرے جھکی ہوئی شاخ سے ایک بھوری گلہری نیچے جھانکتی ہے جیسے وہ ملزموں اور مجرموںکو پہچاننے کی کوشش کررہی ہو۔

ابھی یہاں کوئی نہیں پہنچا سوائے میرے ۔ نہ کوئی ملزم، نہ کوئی گواہ، نہ کوئی منصف ۔۔۔ اور انصاف۔۔۔!؟ آہستہ آہستہ کچھ چہرے دکھائی دینے لگتے ہیں۔شہرکے مختلف اطراف کی گرد تلووں سے چپکائے۔ پھر جانے کہاں سے منصف ِ خصوصی کی کالی سیہ جیپ نمودار ہوجاتی ہے۔ کلف لگی سفید شلوار قمیص، گرے واسکٹ اور دائیں ہاتھ میں فربہ ساموبائل سنبھالے صاحب ایک شانِ بے نیازی سے کمرہ ٔانصاف میں اوجھل ہو جاتے ہیں۔ چہرا دکھائی نہیں دیتا۔کچھ سائل ہونٹ صاحب کے ڈرائیور کے کانوں کو گھیر لیتے ہیں۔ اس کی مونچھیں کِھلنے لگتی ہیں۔

’’اشتیاق احمد ولد مشتاق احمد۔۔۔۔!‘‘

’’کرامت مسیح ولد سلامت مسیح۔۔۔!‘‘
بلاوے شروع ہو جاتے ہیں۔
حاضری دینے کے لیے، فردِ جرم سننے کے لیے، شہادتیں دینے کے لیے۔ پھر وکیل اور ضمانت۔۔۔ اورحنائی داڑھی والے پیادے کی مسلسل پکار ۔۔۔۔
پوری بیالیس آوازوں کے بعد میرا نام پکارا جاتا ہے۔

نِیم تاریک کمرے میں خاکی فائلوں، ایک گھنٹی اورایک ٹیبل لیمپ سے سجے ایک بڑے مستطیل میز کے پار سے آواز آتی ہے: ’’انتظار کریں‘ فائل دیکھ لوں‘‘۔
خاموشی۔
مزید خاموشی۔
’’محکمانہ افسرکا تحریری بیان بے گناہی ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں۔ ایک درخواست لکھیے میرے نام، پھر غور ہو گا۔‘‘
آواز سنائی دیتی ہے۔
’’کیا لکھنا ہے درخواست میں۔۔۔؟‘‘ میں استفسار کرتا ہوں۔
’’یہ قانونی معاملہ ہے۔ وکیل کر لیجیے۔ اسے پتہ ہے کیا اور کیسے لکھنا ہے قانون کی زبان میں‘‘۔
’’وکیل؟ ۔۔۔ اب وکیل کہاں سے ڈھونڈوں!۔۔۔‘‘
میز پر بائیں طرف پڑی گھنٹی کا بٹن تین بار دبتا ہے۔کالا کوٹ اور سفید پتلون پہنے ایک نوجوان وکیل کمرے میں داخل ہوتا ہے۔
’’ان کی مدد کر دیں‘‘۔ آواز کہتی ہے۔
’’آئیے، میرے ساتھ‘‘۔ میں اس نوجوان کے ساتھ باہر آجاتا ہوں جہاں سب احاطے میں بکھرے ہوئے ہیں، یہاں وہاں، کچھ برگد کے نیچے، کچھ آم اور شہتوت کے تلے ۔۔۔ کچھ پرسوں کی بارش کے بچے کھچے پانی سے بنے چھپڑ کے کنارے اکڑوں بیٹھے ہیں اور کچھ نے پھپھوندی لگی اینٹوں پر نشست کر رکھی ہے۔کچھ کھڑی سواریوں پر بیٹھے ہیں۔۔۔ سرنیہوڑائے۔۔۔ کبھی کبھی سر اُٹھا کر دیکھ لیتے ہیں، ایک دوسرے کو بے معنی سے انداز میں اور بس۔شہتوت کی جھکی شاخ پر گلہری البتہ مسلسل حرکت میں ہے،بار بار نمودار ہوتی ہے، شرارت سے تنے تک آتی ہے اور پھر غائب ہو جاتی ہے، پتہ نہیں کہاں!
’’میری فیس ابھی دیں گے یا بعد میں؟‘‘ نوجوان وکیل پوچھتا ہے۔
’’بعد میں‘‘۔میں جواب دیتا ہوں۔
’’آئیے، میرے ساتھ اندر‘‘َ
دوسرے کمرے میں سفید شرٹ اور خاکی پتلون پہنے ٹائپسٹ کچھ ٹائپ کررہاہے، کوئی درخواست یا شاید کوئی فیصلہ۔ حنائی داڑھی والا پیادہ دو افرادسے مخاطب ہے: ’’میں نہ کہتا تھا زیادہ جرمانہ نہیں ہونے دوں گا اور یہ جرمانہ بھی انہی پیسوں میں ادا ہو جائے گا۔ بس اگلے ہفتے آکے رسید لے جانا۔ ٹھیک ہے؟ خوش؟‘‘
ٹائپسٹ کی ٹِک ٹِک جاری ہے۔ نوجوان وکیل اس کے قریب بیٹھا میری طرف سے درخواست لکھوا رہا ہے۔ دروازے سے ٹیک لگائے ایک لڑکا رو رہا ہے۔ گہرے نیلے رنگ کی میلی شلوار قمیص میں۔ گدلی گدلی آنکھیں، شفاف آنسو۔
’’رونا بند کر۔ کروا دیتے ہیں تیرا کام۔ آئندہ دیر سے نہ آنا تاریخ پر۔ یہ عدالت ہے کوئی مذاق نہیں‘‘۔یہ سن کر لڑکا آستین سے اپنی آنکھیں پونچھنے لگتا ہے۔
’’لیجیے،ہوگئی آپ کی درخواست، اتنے مہینے آپ نے یوں ہی ضائع کر دیے، پہلے بات کر لیتے، مل لیتے مجھ سے یا مولوی سے۔‘‘ وہ پیادے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتا ہے۔ پھر مہین سے لیگل سائز ورق پرٹائپ کی ہوئی درخواست مجھے دکھاتے ہوئے کہتا ہے : ’’خیر، چلیے اب اندر صاحب کو پیش کرنی ہے یہ۔‘‘
ہم کمرۂ عدالت کی طرف بڑھتے ہیں۔
دروازے سے باہر حنائی داڑھی والا پیادہ کسی کو رازدارانہ انداز میں کہہ رہا ہے:’’باؤ جی، بھاویں اِنج کر لو بھانویں اُنج کر لو۔ گل اکو ای اے۔ پیسے بغیر کم نئیں جے بننا۔ ایتھے لوک چار چار سال توں دھکے کھا رئے نیں۔ ساڈے وکیل صاب وڈّے صاب دے جوائی نیں ۔ مسلہ ای کوئی نئیں۔ سمجھو، تہاڈا کم ہو گیا۔‘‘

میں وکیل کے ساتھ کمرے میں داخل ہوتا ہوں۔
دو سپاہی اور ہتھکڑی میں جکڑا ایک بوڑھا میز کے سامنے کھڑے ہیں۔ میز کے اُس پارسے گرج دار آواز کہتی ہے: ’’نہیں، جاؤ میں نہیں منظور کرتا اس کی ضمانت۔ یہ عدالت ہے، مجھے انصاف کرنا ہے، انصاف چہرہ نہیں دیکھتا، عدالت سچائی کو دیکھتی ہے صرف سچائی کو۔‘‘
سپاہی ملزم کو لیے وہاں سے ہٹتے ہیں۔ منصف صاحب کا ہیولہ میری نگاہ کی دسترس میں آ جاتا ہے۔
’’یہ کیا!‘‘ ایک چیخ میرے اندر ہی دم توڑ دیتی ہے۔
کندھوں پر چغہ، سر پر عجیب وضع کا ہیٹ، چہرے پر دو تاریک گہرے غار ۔۔۔ سامنے بڑھے ہوئے ہاتھوں پر دو آنکھیں دھری ہیں جن کے دیدے حرکت کر رہے ہیں، دائیں سے بائیں ۔۔۔ بائیں سے دائیں۔
میں چیخنے کی کوشش کرتا ہوں مگر چیخ سینے ہی میں خشک ہو جاتی ہے۔میں زور سے اپنی آنکھیں میچ لیتا ہوں کہ یہ خواب آگے چلے، عقابوں کا غول آئے اور خواب ختم ہو مگر وہاں کوئی عقاب نہیں ۔۔۔ بس کو ّے ہی کو ّے ہیں۔۔۔ یہاں وہاں سر نیہوڑائے بیٹھے ہوئے، برگد کے نیچے، آم اور شہتوت کے تلے ۔۔۔ پرسوں کی بارش کے بچے کھچے پانی سے بنے چھپڑ کے کنارے اور پھپھوندی لگی اینٹوں پر ۔۔۔ اب انہیں کون سمجھائے کہ عدالت سچائی کو دیکھتی ہے صرف سچائی کو!
اور آج کی سچائی؟
شاید میں جانتا ہوں یا شہتوت کی شاخ سے لپکتی گلہری ۔
سِتم یہ کہ میری آواز حلق میں دفن ہے۔
اور گلہری کی زبان کو ّے سمجھتے نہیں۔
۔۔۔۔۔

Related posts

Leave a Comment