ممتاز اطہر ۔۔۔ اورہی طرح کے میں سلسلے بناتا ہوں

اورہی طرح کے میں سلسلے بناتا   ہوں
دشت چھان لیتا ہوں ، آئنے بناتا   ہوں
 
یہ مری روایت ہے ، جبر کی فصیلوں کو
ریزہ ریزہ کرتا   ہوں ، راستے بناتا  ہوں
 
خواب جب بھی آتے ہیں اک بھنور کی مٹھی میں
میں بھی اپنے سینے میں وسوسے بناتا ہوں
 
مجھ پہ کھلنے لگتے ہیں ، خوشبوؤں کے دروازے
جب کبھی محبت کے زمزمے بناتا    ہوں
 
ہم جو کام کرتے ہیں ، کتنے مختلف سے ہیں
تم ہوا بناتے ہو ، میں دیے بناتا ہوں
 
اک شجر بناتا ہوں ، کینوس کے ماتھے پر
اور اس پہ چڑیوں    کے گھونسلے بناتا ہوں
 
ایک  دھیان ایسا ہے ، جس کی اوٹ میں اطہر
نیند سے بچھڑتا  ہوں ، رتجگے بناتا ہوں

Related posts

Leave a Comment