ممتاز اطہر ۔۔۔ محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے

محوِ حیرت ہیں کہ تعمیر کی حسرت کیا ہے
آسماں ہے تو کسی چھت کی ضرورت کیا ہے

ہم نے رکھے ہیں سرِ شام دیے مٹی میں
ہم سے پوچھے کوئی ، مٹی کی محبت کیا ہے

آئنہ ہونے کی خواہش بھی تو خود ہی کی تھی
اب اگر ٹوٹ کے بکھرے ہیں تو حیرت کیا ہے

شاخ سے ٹوٹتے پتے ہی بتا سکتے ہیں
ہجر کیا چیز ہے اور اصل میں ہجرت کیا ہے

ان کے ہم راہ کسی روز نکل چلتے ہیں
دیکھتے ہیں کہ پرندوں کی مسافت کیا ہے

خود ہی مارے گۓ ہم خواب کے چوراہے پر
ہم جو یہ دیکھنے نکلے تھے حقیقت کیا ہے

شام کے پہلے ستارے نے ہوا سے پوچھا
ریت پر لکھی ہوئی تیری عبارت کیا ہے

دھیان کے شہر میں اُترا ہُوا صحرا اطہر
پوچھتا پھرتا ہے گلیوں میں ، کہ وحشت کیا ہے

Related posts

Leave a Comment