شبیر نازش ۔۔۔ رکی ہوئی ہیں گردشیں، نظام چل نہیں رہا

رکی ہوئی ہیں گردشیں، نظام چل نہیں رہا
گیا وہ جب سے چھوڑ کے، سمے بدل نہیں رہا

ہر ایک شے ہے آس پاس جوں کی توں رواں دواں
مگر مری گرفت میں وہ ایک پل نہیں رہا

میانِ وصل، یک نفس وہ یوں کھلا کہ اس گھڑی
ابد ابد نہیں رہا، ازل ازل نہیں رہا

نفس نفس حکایتیں، زباں زباں روایتیں
سِوا ہے علم ہر کہیں مگر عمل نہیں رہا

خدا کرے کہ وہم ہو، خدا کرے کہ خیر ہو
بہت دنوں سے اس طرف چراغ جل نہیں رہا

ترے سِوا بھی صورتیں بسیں ہماری آنکھ میں
مگر کسی کا تذکرہ غزل غزل نہیں رہا

ہوا تھا جو بھی بھول جا، جو ہو سکے تو لوٹ آ
ترے بغیر جانیا! یہ دل بہل نہیں رہا

Related posts

Leave a Comment