دل میں کیا بات کھٹکنے لگی ہے وقت کی سانس اٹکنے لگی ہے میں نے رکھا ہے دریچے میں دیا اور ہوا راہ بھٹکنے لگی ہے عشق تھا پہلے پڑاٶ پہ ابھی پھر نٸی آگ دہکنے لگی ہے مجھ کو بھی خواب نے گھیرا ہوا ہے رات بھی آنکھ جھپکنے لگی ہے ایک دھندلی سی کسی یاد کی لَو کتنی یادوں میں دمکنے لگی ہے کوٸی صحرا مرے اندر ہے رواں ریت آنکھوں سے ٹپکنے لگی ہے اب ترا ساتھ ضروری ہے مجھے زندگی ہاتھ جھٹکنے لگی ہے کون اطہر…
Read MoreTag: ممتاز اطہر کی غزل
ممتاز اطہر … سفر کی دھوپ میں آگے ، سراب سا کچھ ہے
سفر کی دھوپ میں آگے ، سراب سا کچھ ہے چھلک پڑا ہے جو آنکھوں سے ، خواب سا کچھ ہے اسی کو علم ہے اس رات کی طوالت کا وہ جس کے سینے میں اک آفتاب سا کچھ ہے یہ جس مقام پہ لائی ہیں گردشیں ہم کو یہاں قیام تو شاید عذاب سا کچھ ہے میں خود کو ٹھیک سے ، اک بار پھر بناٶں گا میں جانتا ہوں کہ مجھ میں خراب سا کچھ ہے بنا رہا ہے تصاویر سی وہ باتوں کی سو گفتگو میں وہی…
Read Moreممتاز اطہر
جھیل میں عکسِ شام آ پڑا ہے یہ سخن کس کے نام آ پڑا ہے
Read More