صفدر صدیق رضی ۔۔۔ نظم

نظم
۔۔۔۔۔
میں نظم کی انگلی پکڑ کر جب چلا
تو راستے میں
مجھ کو میری کمسنی کے دن
اچانک مل گئے
معصومیت کے رنگ میں لتھڑے ہوئے
مہکے ہوئے
وہ دسترس کو آزماتی تتلیوں کے پیار میں
بہکے ہوئے
پھر نظم کچھ آگے بڑھی
میں بھی ڈرا آگے بڑھا
میری جوانی کے شب و روز آ گئے
سب معصیت کی آگ سے لپٹے ہوئے
بے رہروی کی لو بڑھاتے
گل رخوں کے عشق میں بہکے ہوئے
پھر نظم کے اصرار پر میں رُک گیا
آگے نہ کوئی رنگ تھا
آتش نہ تھی
اک منجمد تاریک شب تھی
اور میں بیتے دنوں کی یاد میں گْم
راستے سے لوٹ آیا
یہ مِری حدّ ِ ادب تھی

Related posts

Leave a Comment