ارشد عباس ذکی ۔۔۔ ہوا سے ہاتھ چھڑانا بہت ضروری تھا

ہوا سے ہاتھ چھڑانا بہت ضروری تھا کہ اب چراغ جلانا بہت ضروری تھا ہمارے زخم اگر اور بڑھ گئے بھی تو کیا تمہارا درد بٹانا بہت ضروری تھا مری زمین مرے دل میں بھی شگاف سا ہے یہ راز تجھ کو بتانا بہت ضروری تھا طویل نیند سے بیدار ہو رہے تھے شجر سو اب چراغ بجھانا بہت ضروری تھا مری تو جنگ مرے اپنے ہی وجود سے تھی عدو کو ساتھ ملانا بہت ضروری تھا یہ راستے جو مرے چار سو بچھے تھے ذکی کسی طرف کو تو…

Read More

ارشد معراج ۔۔۔ وہ کوئی اور تھا

وہ کوئی اور تھا ———— روشنی میرے حصے کی تھی اپنی رفتار کو تیز کر نہ سکی میں بھٹکتا رہا اِس طرف اُس طرف میں کہ صحراؤں میں دھول اُڑاتے ہوۓ رتھ پہ بیٹھا ہوا اک شکستہ بدن کون پہچانتا میرے کھیسے میں رکھے ہوۓ اُس کی قربت کے ٹکڑے بکھرتے رہے میں خزاں کی گھنی وادیوں میں کنویں کی طلب کا سہارا لیے دم بدم پا برہنہ رہا بوجھ بھیجے میں تھا پر یہ کاندھے مرے سوتری کی طرح روز کھنچتے رہے ان پہ رکھا ہوا میرا سر اِس…

Read More

منچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔ ارشد نعیم

منچندا بانی — ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل میں تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں…

Read More

ارشد عباس ذکی ۔۔۔ خزاں کی رت میں شجر سبز ہونے والا نہیں

خزاں کی رُت میں شجر سبز ہونے والا نہیں جو راکھ ہو گیا گھر، سبز ہونے والا نہیں بھلے تو خونِ جگر دے وفا کے پودے کو یہ بات طے ہے کہ سرسبز ہونے والا نہیں یقین ٹوٹ گیا ہے، بھروسہ ختم ہوا یہ برگ بارِ دگر سبز ہونے والا نہیں یہ کوے یوں بھی درختوں سے بغض رکھتے ہیں کہ ان کا ایک بھی پر سبز ہونے والا نہیں گھرا ہوا ہوں درختوں میں اور جانتا ہوں میں ان کے زیرِ اثر سبز ہونے والا نہیں میں اپنے اشک…

Read More

شہرِ خموشاں سے گزرتے ہوئے ۔۔۔ ارشد نعیم

شہرِ خموشاں سے گزرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بے رحم فسوں کار ۔۔۔ پسِ پردہء خاک ہر سخن ساز کو ۔۔۔ خاموش کیے جاتا ہے کتنے خوش رنگ ۔۔۔ حسیں چہروں کو ۔۔۔ خاک بر دوش کیے جاتا ہے نغمہ گر جو بھی ۔۔۔ یہاں آ جائے ۔۔۔ اُس کو خاموش کیے جاتا ہے

Read More

ارشد عباس ذکی …… میں اداس ہوں، مرے مہرباں! میں اداس ہوں

میں اداس ہوں، مرے مہرباں! میں اداس ہوں تو کہیں نہیں ہے، تو ہے کہاں ؟ میں اداس ہوں! میرا شہرِخواب تو ریزہ ریزہ بکھر چکا کہیں کھو گئی میری کہکشاں، میں اداس ہوں مرے ہاتھ خالی ہیں، دل شکستہ ہے، آنکھ نم مرے پاس کچھ بھی نہیں ہے، ماں! میں اداس ہوں! یہ جو جنگ ہے کسی اور وقت پہ ٹال دیں صفِ دوستاں! صفِ دشمناں! میں اداس ہوں تمہیں عمر بھر کا ہے تجربہ، کوئی مشورہ! کوئی مشورہ، اے شکستگاں! میں اداس ہوں میں عجیب ہوں، نہیں! مختلف،…

Read More

ارشد عباس ذکی …… انہی کو لوگ یہاں محترم سمجھتے ہیں

انہی کو لوگ یہاں محترم سمجھتے ہیں جو بولتے تو زیادہ ہیں، کم سمجھتے ہیں ہماری بات کوئی بھی نہیں سمجھتا کہ ہم زمیں کو آنکھ، سمندر کو نم سمجھتے ہیں ہمارے حال پہ ہے ان دنوں خدا کا کرم اور آپ لوگ خدا کا کرم سمجھتے ہیں گلے لگو تو خبر ہو تمہارے دل میں ہے کیا کہ ہم اشارے نہیں بس ردھم سمجھتے ہیں زمانہ اس لئے ہم کو مٹانا چاہتا ہے کہ ہم حقیقت ِ دیر و حرم سمجھتے ہیں ڈرے ہوئے ہیں کہ کوئی ہمیں نکال…

Read More

بد گمانی کے اس طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔ ارشد معراج

بد گمانی کے اس طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی اے کاش ایسا ہو کہ باہم مشورے سے ہم جدائی کے سفر پر چل پڑ یں تو پھر کہانی ختم ہو جاۓ کبھی ایسا نہیں ہوتا کہ یہ عمر رواں اپنے بہاؤ کی مخالف سمت چل دے اور گلابی کا سنی یا سرمئی شامیں پلٹ آئیں سفر بے سمت ہوں تو پھر مسافر کو پنہ گاہیں نہیں ملتیں ( کہ خواب اُگتے نہیں ہیں آنکھ کی اس تھور مٹی میں ) کبھی ایسا نہیں ہوتا یقیں سے وصل کا دعوی ہوا کے تن…

Read More

تو پھر اک نظم اگتی ہے… ارشد معراج

تو پھر اِک نظم اُگتی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی آوارہ جھونکا موسموں کے ہاتھ سے پھسلے تو میں اس کی صداؤں کے تعاقب میں نکلتا ہوں اسے میں ڈھونڈتا ہوں شاخ پر تنہا لرزتے آخری پتے کی ہچکی میں کبھی ویران مندر کے اکھڑتے پتھروں سے جھانکتے پیپل کے پودے میں کبوتر کے بکھرتے آہلنے میں اور کبھی مکڑی کے جالے میں کبھی دریا کنارے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونجوں کے گیتوں میں جہاں پر ہجر بہتا ہے اسے میں ڈھونڈتا ہوں اپنے کمرے میں پڑے بستر کی سلوٹ میں جہاں…

Read More