تو پھر اک نظم اگتی ہے… ارشد معراج

تو پھر اِک نظم اُگتی ہے! ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی آوارہ جھونکا موسموں کے ہاتھ سے پھسلے تو میں اس کی صداؤں کے تعاقب میں نکلتا ہوں اسے میں ڈھونڈتا ہوں شاخ پر تنہا لرزتے آخری پتے کی ہچکی میں کبھی ویران مندر کے اکھڑتے پتھروں سے جھانکتے پیپل کے پودے میں کبوتر کے بکھرتے آہلنے میں اور کبھی مکڑی کے جالے میں کبھی دریا کنارے ڈار سے بچھڑی ہوئی کونجوں کے گیتوں میں جہاں پر ہجر بہتا ہے اسے میں ڈھونڈتا ہوں اپنے کمرے میں پڑے بستر کی سلوٹ میں جہاں…

Read More