بانی ۔۔۔ منا لینا اُس کو ہنر ہے مرا

منا لینا اُس کو ہنر ہے مرا بہانہ ہر اک کارگر ہے مرا ہوا ہم سفر ہو گئ ہے مری قدم ہیں مرے، اب نہ سر ہے مرا مجھے کیا خبر تھی تری آنکھ میں عجب ایک عکسِ دِگر ہے مرا مجھے آسماں کر رہا ہے تلاش گھنے جنگلوں سے گزر ہے مرا میں دو دن میں خود تُجھ سے کٹ جاؤں گا کہ ہر سلسلہ مختصر ہے مرا زمانے تری رہبری کے لیے بہت یہ غبارِ سفر ہے مرا ترے سامنے کچھ نہ ہونے کا عکس مرے سامنے کوئی…

Read More

منچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔ ارشد نعیم

منچندا بانی — ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل میں تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں…

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ چاند سے سارا آسماں خالی

چاند سے سارا آسماں خالی ہر جگہ ہے یہاں وہاں خالی غم کے بے کیف سلسلے ہیں یہاں حادثوں سے ہے داستاں خالی آتشِ گل ہی جب ہوئی کچھ تیز خود کئے ہم نے آشیاں خالی یہ اَنا کیسی درمیاں آئی ہو چلی بزمِ دوستاں خالی آتا جاتا کہیں نہیں کوئی ایک اک راہ بے نشاں خالی کیسے کیسے مقام آئے ہیں میں ہوا ہوں کہاں کہاں خالی اب ہے بانی فضا فضا محروم گونجتا ہے مکاں مکاں خالی

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ او ستم گر! تو بڑا دشمنِ جاں ہے سب کا

او ستم گر! تو بڑا  دشمنِ جاں ہے سب کا کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے سب کا ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے سب کا آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے سب کا اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں حسن کے باب میں ادراک جواں ہے سب کا ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے…

Read More

بانی ۔۔۔۔ شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے

شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف مری ایک ذاتِ دگر کی طرف بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف مرے واسطے جانے کیا لائے گی گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح کوئی درمیاں سے نکلتا گیا نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف تری دشمنی خود ہی مائل رہی کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں کسی منزلِ پُر خطر کی طرف

Read More