بانی

شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے

Read More

بانی ۔۔۔۔ شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے

شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے

Read More