منچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔ ارشد نعیم

منچندا بانی — ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل میں تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں…

Read More

بانی ۔۔۔۔ شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے

شب چاند تھا جہاں وہیں اب آفتاب ہے در پر مرے یہ صبح کا پہلا عتاب ہے آواز کوئی سر سے گزرتی چلی گئی میں یہ سمجھ رہا تھا کہ حرفِ خطاب ہے ہر گز یہ سچ نہیں کہ لگن خام تھی مری ہاں کچھ بھی جو کہے جو یہاں کامیاب ہے شب، کون تھا یہاں جو سمندر کو پی گیا اب کوئی موجِ آب نہ موجِ سراب ہے اک لمحہ جس کے سینے میں کچھ پل رہا ہے کھوٹ بانی ابھی وہ اپنے لیے خود عذاب ہے

Read More