بانی ۔۔۔۔۔ ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں

ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں میں خود ایک کھنڈر ہوں جس میں وہ آنگن آ دیکھو تم ان بن گہری ہو جائے گی یوں ہی سمے گزرنے پر اس کو منانا چاہوگےجب، بس نہ چلے گا دیکھو تم ایک ایسی دیوار کے پیچھے، اور کیا کیا دیواریں ہیں اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی، سر بھی ٹکرا دیکھو تم ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمھاری راہ میں ہے ڈال دو ڈیرہ وہیں، جہاں پر نور ذرا سا دیکھو تم سچ کہتے ہو! ان…

Read More

منچندا بانی— ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔ ارشد نعیم

منچندا بانی — ایک گم شدہ خواب کا مغنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ منچندا بانی نے آنکھ کھولی تو ایک ہزار سال کے تجربات سے تشکیل پانے والی ہند اسلامی تہذیب ایک حادثے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ہندوستان آزادی کی تحریک کا مرکز بنا ہوا تھا اور ہندوستان کی تقسیم آخری مراحل میں تھی اور ایک ایسی ہجرت کے سائے دو قوموں کے سر پر منڈلا رہے تھے جو لہو کی ایک ایسی لکیر چھوڑ جانے والی تھی جسے صدیوں تک مٹانا ممکن نہیں ہوگا۔ یہ احساس، یہ منڈلاتا ہوا خطرہ ہمیں…

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ او ستم گر! تو بڑا دشمنِ جاں ہے سب کا

او ستم گر! تو بڑا  دشمنِ جاں ہے سب کا کوئی بھی زخم سے چیخا تو زیاں ہے سب کا ہے تو اک شخص کے ہونٹوں پہ ترا قصّۂ غم شاملِ قصّہ مگر دودِ فُغاں ہے سب کا آ بھی جاتے ہیں اِدھر بیتی رُتوں کے جھونکے اب یہی خانۂ غم کنجِ اماں ہے سب کا اک چمک سی نظر آ جائے، تڑپ اٹھتے ہیں حسن کے باب میں ادراک جواں ہے سب کا ایک اک شخص ہے ٹوٹا ہوا اندر سے یہاں کیا چھپائے گا کوئی، حال عیاں ہے…

Read More

بانی ۔۔۔۔۔ سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف

سفر ہے مرا اپنے ڈر کی طرف مری ایک ذاتِ دگر کی طرف بھرے شہر میں اک بیاباں بھی تھا اشارہ تھا اپنے ہی گھر کی طرف مرے واسطے جانے کیا لائے گی گئی ہے ہوا اک کھنڈر کی طرف کنارہ ہی کٹنے کی سب دیر تھی پھسلتے گئے ہم بھنور کی طرح کوئی درمیاں سے نکلتا گیا نہ دیکھا کسی ہم سفر کی طرف تری دشمنی خود ہی مائل رہی کسی رشتۂ بے ضرر کی طرف رہی دل میں حسرت کہ بانی چلیں کسی منزلِ پُر خطر کی طرف

Read More