بانی ۔۔۔۔۔ ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں

ابھی کہاں معلوم یہ تم کو ویرانے کیا ہوتے ہیں
میں خود ایک کھنڈر ہوں جس میں وہ آنگن آ دیکھو تم

ان بن گہری ہو جائے گی یوں ہی سمے گزرنے پر
اس کو منانا چاہوگےجب، بس نہ چلے گا دیکھو تم

ایک ایسی دیوار کے پیچھے، اور کیا کیا دیواریں ہیں
اِک دیوار بھی راہ نہ دے گی، سر بھی ٹکرا دیکھو تم

ایک اتھاہ گھنی تاریکی کب سے تمھاری راہ میں ہے
ڈال دو ڈیرہ وہیں، جہاں پر نور ذرا سا دیکھو تم

سچ کہتے ہو! ان راہوں پر چَین سے آتے جاتے ہو
اب تھوڑا اس قید سے نکلو، کچھ ان دیکھا دیکھو تم

خالی خالی سے لمحوں کے پھول ملیں گے پوجا کو
آنے والی عمر کے آگے دامن پھیلا دیکھو تم

ہم پہنچے ہیں بیچ بھنور کے روگ لیے دنیا بھر کے
اور کنارے پر دنیا کو لَوٹ کے جاتا دیکھو تم

اِک عکسِ موہوم عجب سا اِس دھندلے خاکے میں ہے
صاف نظر آئے گا تم کو، اب جو دوبارہ دیکھو تم

اپنی خوش تقدیری جانو، اب جو راہیں سہل ہوئیں
ہم بھی اِدھر ہی سے گزرے تھے، حال ہمارا دیکھو تم

رات، دعا مانگی تھی بانی ہم نے سب کے کہنے پر
ہاتھ ابھی تک شل ہیں اپنے، قہر خدا کا دیکھو تم

Related posts

Leave a Comment